السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس میں کوئی شک نہیں کہ طواف افاضہ حج کا رکن ہے۔ اگر کوئی عورت تنگیٔ وقت کی بنا پر اسے چھوڑ دے اور اس کے لیے طہر تک انتظار کرنا بھی ممکن نہ ہو تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت اور اس کے سرپرست پر انتظار کرنا واجب ہے۔ حتیٰ کہ وہ پاک ہو جائے اور طواف افاضہ کرے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حیض سے دوچار ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے آگاہ کیا گیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَحَابِسَتُنَا هِيَ ؟ فلما: أخبر أنها قد أفاضت، قَالَ:انْفِرُوا)
’’ کیا وہ ہمیں روک دے گی؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں تو آپ نے فرمایا :روانہ ہو جاؤ ۔‘‘
اگر اس عورت کے لیے انتظار کرنا ممکن نہ ہو لیکن طواف کی ادائیگی کے لیے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ممکن ہو تو اس کے لیے (طواف کئے بغیر) واپسی کا سفر جائز ہے، البتہ طہارت حاصل ہونے کے بعد پھر اسے طواف کرنے کے لیے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا پڑے گا۔
اور اگر دوبارہ آنا ممکن نہ ہو یا خطرہ ہو کہ وہ دوبارہ نہیں آ سکے گی جیسا کہ مکہ مکرمہ سے دور مغرب یا انڈونیشیا وغیرہ کے رہنے والے لوگ ہیں تو اس بارے میں صحیح مذہب یہ ہے کہ وہ حفاظتی تدابیر اختیار کر کے حج کی نیت سے طواف کر لے، اس کے لیے یہی کچھ کافی ہو جائے گا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد رشید علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما کے علاوہ علماء کی ایک جماعت کی بھی یہی رائے ہے۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب