سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) گھریلو استعمال کے خاص برتنوں میں زکوٰۃ نہیں ہے

  • 22193
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 582

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے پاس گھریلو استعمال کے  لیے  بہت سے برتن ہیں، ان میں سے کچھ تو روزانہ کے استعمال کے  لیے  ہیں جبکہ کچھ عام مہمانوں کے  لیے ، اور کچھ خاص تقریبات کے  لیے  ہیں، اور یہ بہت زیادہ ہیں۔ میں برتن ادھار یا کرائے پر لینے کی بجائے انہی برتنوں کو استعمال کرتی ہوں، کیونکہ بیرونی برتن گندے اور پرانے ہونے کی وجہ سے میری سوسائٹی میں ناقابل استعمال ہوتے ہیں۔ میں یہ برتن گھر پر الماریوں میں سنبھال کر رکھتی ہوں اور بوقت ضرورت اپنے قریبی رشتے داروں اور ہمسائیوں کے ساتھ تعاون کی غرض سے انہیں عاریتا فراہم کرتی ہوں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں نے عورتوں کے ایک اجتماع میں ایک خاتون سے سنا وہ کہہ رہی تھی کہ انسان کا تمام سامان کے بارے میں حساب و کتاب ہو گا، جن میں برتن بھی شامل ہیں۔ اس نے مزید کہا اس سامان کی وجہ سے ہم روز قیامت عذاب سے دوچار ہوں گے (اور آگ میں گرم کر کے) ان برتنوں سے ہمیں داغا جائے گا (اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے) اب وضاحت طلب امر یہ ہے کہ کیا میں ان برتنوں کو صدقہ کر دوں اور اپنی تقریبات کے مواقع پر دوسرے لوگوں سے مانگتی پھروں یا انہیں باقی رہنے دوں اور ان کی زکوٰۃ ادا کروں یا ان میں زکوٰۃ واجب ہی نہیں؟ آخر مجھے کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو کچھ بتایا اس میں قطعا کوئی حرج نہیں اور مذکورہ برتنوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، کیونکہ وہ برائے فروخت نہیں، صرف ضروریات کی تکمیل اور دوسروں کی خدمت کے  لیے  ہیں۔ آپ سے جس نے یہ کہا ہے کہ ان برتنوں کو سنبھال کر رکھنا ناجائز ہے تو ایسا کہنے والا جاہل اور غلط ہے۔ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین میں بغیر علم کے ایک بات کہہ دی ہے۔ اسے توبہ کرنی چاہیے اور بغیر علم کے فتویٰ جاری کرنے سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے غیر ذمہ دارانہ عمل کو بڑی سختی سے حرام قرار دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٣٣﴾ (الاعراف 7؍33)

’’ آپ فرما دیجئے کہ میرے پروردگار نے بیہودگیوں کو حرام کر دیا ہے، ان میں جو ظاہر ہوں (ان کو بھی) اور جو پوشیدہ ہوں (ان کو بھی) اور گناہ کو اور کسی پر ناحق زیادتی کو اور اس کو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرو جس کے  لیے  اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور اس کو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمے ایسی جھوٹی بات لگا دو جس کا تم کوئی علم نہیں رکھتے ۔‘‘

ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اللہ ذوالجلال کے متعلق بغیر علم کے بات کرنے کا حکم شیطان دیتا ہے اور یہ بات اللہ کے اس فرمان میں ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿١٦٨﴾ إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا  تَعْلَمُونَ ﴿١٦٩﴾ (البقرہ 2؍168-169)

’’ اے لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ۔‘‘

والله ولى التوفيق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

زکوٰۃ کے مسائل،صفحہ:140

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ