سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(117) تعزیتی مجلس برپا کرنا

  • 22183
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1378

سوال

(117) تعزیتی مجلس برپا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میت کو دفن کرنے کے تین دن بعد تک تعزیتی (ماتمی) اجتماع کرنے اور قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 میت کے گھر میں کھانے پینے یا قرآن خوانی کے  لیے  اکٹھا ہونا بدعت ہے۔ اسی طرح ورثاء کا میت کے  لیے  کسی دعائیہ مجلس کا انعقاد بھی بدعت ہے۔ میت کے گھر صرف تعزیت کرنے اور ان کے حق میں دعا کرنے اور اہل خانہ کو تسلی دینے کے  لیے  جانا چاہیے۔

لوگوں کا تعزیتی اجتماع (ماتم) منعقد کرنا، خاص طرح کی دعائیہ مجالس برپا کرنا، قرآن خوانی کے  لیے  محافل کا انعقاد کرنا، ایسی چیزوں کا شرع میں کوئی وجود نہیں، اگر ان جیسی چیزوں میں کوئی خیر ہوتی تو ہمارے سلف صالحین ایسا ضرور کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ جب جعفر بن ابی طالب، عبداللہ بن رواحہ اور زید بن ثابت  رضی اللہ عنہم جنگ موتہ میں شہید ہوئے اور وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو ان حضرات کی موت کی خبر دی، ان کے  لیے  دعا فرمائی اور اپنی رضا کا اظہار فرمایا، لیکن نہ تو لوگوں کو جمع کیا، نہ کوئی دعوت ترتیب دی اور نہ کوئی ماتمی پروگرام تشکیل دیا، حالانکہ یہ لوگ افضل ترین صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا مگر اس بات کے باوجود کہ آپ تمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے افضل ہیں کسی نے آپ کا ماتم نہ کیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے مگر کسی نے کوئی ماتم نہ کیا، لوگوں کو رونے دھونے کے  لیے  جمع کیا نہ انہوں نے قرآن خوانی کی۔ بعد ازاں عثمان و علی رضی اللہ عنہما شہید کئے گئے، تو اس موقع پر لوگوں کو جمع نہ کیا گیا کہ وہ ان کے  لیے  دعا کریں یا مجلس ترحیم منعقد کریں۔ میت کے عزیزوں یا ہمسایوں کے  لیے  مستحب یہ ہے کہ وہ میت کے اہل خانہ کے  لیے  کھانا تیار کر کے ان کے ہاں بھجوائیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچی تو گھر والوں سے فرمایا:

(اصْنَعُوا لآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ) (رواہ الترمذی فی کتاب الجنائز)

’’ آل جعفر کے  لیے  کھانا تیار کرو، تحقیق ان کے پاس ایک ایسی خبر پہنچی ہے جو انہیں مشغول کر دے گی۔‘‘  (اور وہ کھانا وغیرہ تیار نہیں کر سکیں گے)۔

گھر والے ایک مصیبت سے دوچار ہیں، اب اگر کھانا تیار کر کے ان کے ہاں بھیجا جائے تو یہ ایک مشروع کام ہے۔ لیکن انہیں ایک نئی مصیبت سے دوچار کرنا اور لوگوں کے  لیے  کھانا تیار کرنے کا پابند بنا دینا سنت کے یکسر خلاف ہے۔ بلکہ بدعت ہے، جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

(كُنَّا نَرَى الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ، بَعْدَ دَفْنِهِ مِنْ النِّيَاحَةِ) (رواہ ابن ماجة)

’’ ہم میت والوں کے ہاں جمع ہونے اور دفن کے بعد کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔‘‘

اور نوحہ یعنی بلند آواز سے چیخنا چلانا حرام ہے اور اس کی وجہ سے میت کو عذاب قبر دیا جاتا ہے۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، ہاں آنسو بہانے میں کوئی حرج نہیں۔ وبالله التوفيق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

جنائز،صفحہ:130

محدث فتویٰ

تبصرے