السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نماز پڑھنے کے لیے ایسا کپڑا زیب تن کرتی ہے جو کہ مردوں کا شعار ہے۔ کیا ایسے لباس میں اس کی نماز جائز ہے؟ اور کیا یہ عمل مردوں سے مشابہت کے ضمن میں آتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسا کپڑا جو کہ مردوں کا شعار ہو عورت کے لیے ہر حالت میں اس کا پہننا حرام ہے، چاہے وہ نماز کی حالت میں پہنے یا عام حالات میں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور عورتوں پر لعنت فرمائی ہے، لہذا کسی بھی عورت کے لیے مردوں کا مخصوص لباس پہننا جائز نہیں اور نہ کسی مرد کے لیے عورتوں کا مخصوص لباس پہننا جائز ہے۔
لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ خصوصیت کا مفہوم کیا ہے؟ خصوصیت صرف رنگ میں نہیں، بلکہ رنگ اور صفت دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔ لہذا عورت کے لیے سفید رنگ کا لباس زیب تن کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کی تراش خراش (بناوٹ) مردوں کے لباس جیسی نہ ہو۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ مردوں کے ساتھ مخصوص لباس عورتوں پر حرام ہے تو ایسے لباس میں بعض اہل علم کے نزدیک عورت کی نماز درست نہیں ہے، یہ علماء وہ ہیں جو ستر میں اس امر کی شرط لگاتے ہیں کہ وہ ساتر مباح بھی ہو۔
دراصل یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض علماء پردہ کرنے والے (ساتر) لباس میں اس کے جائز ہونے کی شرط لگاتے ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔ اس کے جائز ہونے کی شرط لگانے والے علماء کی دلیل یہ ہے کہ واجب الستر اعضاء کا چھپانا شرائط نماز میں سے ہے اور ضروری ہے کہ ساتر لباس وہ ہو جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہو اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت نہ دی ہو تو وہ شرعا ساتر نہیں ہو گا۔
اور جو علماء گناہ کے باوجود اس لباس میں نماز کے صحیح ہونے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ ستر، تو بہرحال حاصل ہو چکا ہے۔ (لہذا اس میں نماز درست ہو گی) جبکہ گناہ اس معاملے سے خارج ہے جو کہ نماز کے ساتھ مخصوص نہیں۔ بہرحال حرام لباس زیب تن کر کے نماز پڑھنے والا اس خطرے سے دوچار رہے گا کہ کہیں اس کی نماز رد نہ کر دی جائے اور وہ شرف قبولیت سے محروم رہے۔ ۔۔۔شیخ محمد بن صالح عثیمین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب