السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں کلیہ شرعیہ (شرعی کالج) میں زیر تعلیم ہونے کی بناء پر اپنے خاوند سے فقہ اور تعلیمی اعتبار سے فائق ہوں جبکہ میرا آدھا خاندان ان پڑھ ہے۔ کیا اس اعتبار سے میں اس کی امامت کرا سکتی ہوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت مرد کی امام نہیں بن سکتی خواہ وہ اس کا خاوند ہو، بیٹا ہو یا باپ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً) (رواہ البخاری فی کتاب المغازی)
’’ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کر دیا ہو ۔‘‘
عورت اگر مرد سے زیادہ پڑھی لکھی ہو تو بھی وہ منصب امامت کی اہل نہیں۔ باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد:
(يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَأُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ) (رواہ مسلم)
’’ لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے (یعنی لوگوں کو وہ شخص نماز پڑھائے) جو کتاب اللہ کا زیادہ عالم ہو ۔‘‘
تو عورت مرد کے ساتھ اس خطاب کی اہل نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ) (الحجرات 49؍11)
’’ اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا تمسخر نہ اڑائے، ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا تمسخر اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا، یعنی مرد اور عورت۔ اس بناء پر عورت (يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَأُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ) کے عموم میں داخل ہی نہیں۔ ۔۔۔شیخ محمد بن صالح عثیمین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب