السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص فجر کی نماز ظہر سے دو گھنٹے پہلے پڑھتا ہو اس کا کیا حکم ہے؟ معلوم رہے کہ وہ اس سے قبل کا سارا عرصہ نیند میں رہا۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بلا عذر کسی شخص کے لیے نماز کو اس کے مقررہ وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ نیند ہر شخص کے لیے عذر نہیں بن سکتی، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ انسان جلد سو جائے تاکہ وہ بروقت نماز کے لیے بیدار ہو سکے۔ اسی طرح آدمی اپنے والدین، بہن بھائیوں اور ہمسایوں وغیرہ میں سے کسی ایک کی ڈیوٹی لگا سکتا ہے کہ وہ اسے نماز کے لیے بروقت جگا دے۔ علاوہ ازیں اسے خود بھی نماز کو اہمیت دینی چاہیے۔ وہ نماز کے ساتھ یوں دل لگائے کہ اگر وہ سو بھی رہا ہو تو وقت ہونے پر اسے نماز کا احساس ہو جائے۔ جو شخص ہمیشہ ہی فجر کی نماز چاشت کے وقت میں پڑھنے کا عادی ہے اس کے دل میں نماز کی معمولی سی بھی اہمیت نہیں ہے۔ بہرحال انسان ممکن حد تک جلد از جلد نماز ادا کرنے کا پابند ہے۔ نیند سے بیداری پر فورا نماز پڑھنی چاہیے۔ اگر کسی شخص نے غفلت کی ہو یا نماز بھول گیا ہو تو یاد آنے پر فورا ادا کرے۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب