سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) دوران نماز ہاتھ باندھنا

  • 22144
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 658

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں رکوع سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ کہاں باندھنے چاہییں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رکوع سے پہلے اور بعد حالت قیام میں ہاتھ باندھنا سنت ہے، وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ صحیح حدیث سے ثابت ہے وہ فرماتے ہیں:

(رأيت النبى صلى الله عليه وسلم إذا كان قائما فى الصلاة يضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد) (سنن ابی داؤد، و سنن نسائی بسند صحیح)

’’ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز میں قیام فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر، پہونچے (گٹے) اور کلائی پر رکھتے تھے‘‘ (یعنی کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے، ان جگہوں میں سے کسی جگہ پر بھی رکھا جا سکتا ہے۔)

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جید سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی ہے:

(إن النبى صلى الله عليه وسلم كان يضع  يمينه على شماله على صدره، حال وقوفه فى الصلاة) (مسند احمد باسناد جید)

’’ تحقیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑا ہونے کے دوران اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھتے ۔‘‘

اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ابو حازم کے طریق سے سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے نقل کیا:

(كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ) (صحیح البخاری)

’’ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں کہنی پر باندھے ۔‘‘

ابو حازم کہتے ہیں کہ ’’ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ اس بات کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے تھے ۔‘‘ یہ اس کی دلیل ہے کہ نماز میں قیام کرنے والا اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر باندھے گا اور یہ رکوع سے پہلے اور بعد کے قیام کے  لیے  عام ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

نماز،صفحہ:107

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ