السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو بے نماز مرا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اس کے آباؤ اجداد مسلمان تھے؟ اس کے غسل، کفن دفن، نماز جنازہ اور اس کے لیے دعا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعا مکلف اور شرعی احکام سے آگاہ ہونے کے باوجود ایک شخص تارک نماز ہو کر مرا ہو تو ایسا شخص کافر ہے۔ اسے غسل دیا جائے نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے۔ اس کے مسلمان عزیز و اقارب اس کے وارث نہیں بن سکتے، بلکہ علماء کے ایک صحیح قول کی رو سے اس کا مال مسلمانوں کا مال نہیں۔ اس کی دلیل صحیح مسلم میں موجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
(بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ تَرْكُ الصَّلَاةِ ) (صحیح مسلم)
’’ ایک مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک صلوٰۃ حد فاصل ہے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان جو حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں جسے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اہل السنن رحمۃ اللہ علیہم نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یوں ہے:
(الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ) (سنن ترمذی رقم 2623، سنن نسائی، سنن ابن ماجة رقم 1079، مسند احمد 5؍346، مستدرك الحاکم 1؍7، سنن دارمی، السنن الکبری للبیہقی 3؍366، مصنف ابن ابی شیبة 11؍34، و صحیح ابن حبان رقم 1454)
’’ ہمارے اور غیر مسلموں کے درمیان نماز کا ہی تو عہد ہے، جس نے نماز کو ترک کیا اس نے یقینا کفر کیا ۔‘‘
جلیل القدر تابعی عبداللہ بن شقیق العقیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لا يرون شيئا تَرْكُهُ كُفْرٌ إِلَّا الصَّلَاةَ)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کے علاوہ کسی چیز کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔‘‘
اس مفہوم کی احادیث و آثار بکثرت موجود ہیں۔
یہ حکم اس شخص کا ہے جو نماز کو سستی و کاہلی کی وجہ سے چھوڑتا ہو۔ جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک ایسا شخص کافر اور مرتد ہے۔ ہم اللہ رب العزت سے دعاگو ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمائے۔ انہیں صراط مستقیم پر گامزن فرمائے کہ وہ سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب