السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خاتون کی عمر باون برس ہے، اسے ایک ماہ میں تین دن تک بڑی شدت سے خون آتا ہے، باقی ایام میں کم۔ کیا یہ خون، حیض کا خون سمجھا جائے گا؟ جبکہ عورت کی عمر پچاس سال سے زائد ہے۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اسے یہ خون کبھی تو ایک ماہ بعد آتا ہے اور کبھی دو یا تین ماہ بعد۔ کیا ایسی عورت دوران خون فرض نمازیں ادا کر سکتی ہے؟ نیز کیا وہ نفلی نماز اور تہجد ادا کر سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کبر سنی (بڑی عمر) اور بے قاعدگی کی بناء پر یہ خون دم فاسد تصور کیا جائے گا۔ جب عورت پچاس سال کی عمر کو پہنچ جائے یا اس کی ماہانہ عادت بے قاعدہ ہو جائے تو اس سے حیض اور حمل کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ خون کا بے قاعدہ ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ حیض کا خون نہیں ہے، لہذا اس دوران وہ نماز ادا کر سکتی ہے اور روزے رکھ سکتی ہے۔ یہ خون استحاضہ کے خون کا حکم رکھتا ہے جو کہ عورت کے لیے نماز اور روزے سے مانع نہیں ہے، اور نہ ہی اس دوران جماع کرنے میں خاوند کے لیے کوئی رکاوٹ ہے۔ علماء کا صحیح ترین قول یہی ہے۔ ایسی عورت پر ہر نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے۔ وہ روئی وغیرہ سے خون کو روکنے کی کوشش کرے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت سے فرمایا:
(تَوَضَّئي لكُلِّ صلاةٍ) (صحیح البخاری)
’’ ہر نماز کے لیے وضو کیا کر۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب