السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر میں بحالت وضو بچوں کی صفائی کروں تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی کی شرمگاہ کو شہوت سے ہاتھ لگانا ناقض وضو ہے۔ شہوت کے بغیر ایسا کرنے میں اختلاف ہے۔ راجح یہ ہے کہ صفائی کی غرض سے بچوں کی شرمگاہ کو ہاتھ لگانا ناقض وضو نہیں ہے، کیونکہ بچے کی شرمگاہ شہوت کا محل نہیں ہے۔ نیز اگر مس عورۃ (شرمگاہ کو ہاتھ لگانے) سے وضو ٹوٹ جائے تو اس سے یہ عام مصیبت بن جائے گی کیونکہ اس میں بہت تکلیف اور حرج ہے۔ اگر یہ عمل ناقض وضو ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام رحمۃ اللہ علیہم سے مشہور ہوتا۔[1]
[1]۔ الشیخ ابن جبرین حفظہ اللہ کا یہ فتویٰ محل نظر ہے کیونکہ کسی صحیح حدیث میں یہ شرط مذکور نہیں ہے کہ اگر کسی کی شرمگاہ کو شہوت سے ہاتھ لگایا جائے تو وضو ٹوٹ جائے اور شہوت کے بغیر ہاتھ لگانے سے وضو نہ ٹوٹے بلکہ صحیح ابن حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے:
(إِذَا أَفْضَى أَحَدُكُمْ بِيَدِهِ إِلَى فَرْجِهِ، لَيْسَ دُونَهَا حِجَابٌ فَقَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ) (صححہ الحاکم و ابن عبد البر، جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی ج: 1 ص: 85)
’’یعنی جب کسی کا ہاتھ اس کی شرمگاہ کو اس حالت میں لگ جائے کہ ہاتھ اور شرمگاہ کے درمیان کوئی رکاوٹ (کپڑا وغیرہ) نہ ہو تو اس شخص پر وضو کرنا واجب ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم اور ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح کہا ہے۔
نیز اسی ضمن میں قبل ازیں اللجنة الدائمة (دارالافتاء کمیٹی) کا فتویٰ (سوال نمبر: 3، صفحہ: 7) بھی گزر چکا ہے کہ’’جو عورت وضو کی حالت میں اپنے چھوٹے بچے کی شرمگاہ کو صاف کرنے کی غرض سے ہاتھ لگاتی ہے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس کو پھر وضو کرنا پڑے گا۔‘‘اور یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ چونکہ صحابہ کرام اور تابعین عظام سے یہ مشہور نہیں ہوا، لہذا مس عورۃ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ حالانکہ پندرہ بیس صحابہ حدیث بیان فرماتے ہیں " مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَليَتَوَضَّأ " جو شخص اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو اسے وضو کرنا چاہیے۔ والله اعلم بالصواب ۔۔محمد عبدالجبار عفی عنہ۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب