السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک غیر مسلم خادمہ ہے، کیا میں اس کے ہاتھ سے دھلے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھ سکتی ہوں؟ نیز کیا میں اس کے ہاتھ کا تیار کردہ کھانا کھا سکتی ہوں؟ علاوہ ازیں کیا میرے لیے ان کے دین پر اعتراض کرنا اور اس کا بطلان ثابت کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کپڑے دھونے، کھانا پکانے اور اس طرح کے دوسرے کاموں کے لیے کافر سے خدمت لینا جائز ہے۔ اسی طرح اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانا اور اس کے ہاتھ سے دھلے ہوئے کپڑے پہننا بھی جائز ہے، کیونکہ اس کا ظاہری بدن پاک ہے اور اس کی نجاست معنوی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافر لونڈیوں اور غلاموں سے خدمت لیتے تھے اور ان کے لیے بلاد کفر سے درآمدہ شدہ خوراک کھاتے تھے۔ کیونکہ وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ ان کے بدن حسی طور پر پاک ہیں۔ ہاں ارشادات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر غیر مسلم لوگ برتنوں میں شراب نوشی کرتے اور ان میں مردار اور خنزیر کا گوشت پکاتے ہوں تو انہیں استعمال سے پہلے اچھی طرح دھو لینا چاہیے۔ اسی طرح اگر ان کے کپڑے استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو ایسے کپڑوں کو دھو لینا چاہیے جو شرمگاہ سے متصل ہوں۔
جہاں تک ان کے دین پر اعتراض کرنے اور اس کا بطلان کرنے کا تعلق ہے تو دین سے مقصود اگر ان کا موجودہ دین ہے تو ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ موجودہ ادیان یا تو خود ساختہ ہیں جیسا کہ بت پرستی یا وہ محرف اور منسوخ ہیں جیسا کہ نصرانیت، تو اس صورت میں انگشت نمائی خود ساختی، تبدیل شدہ اور منسوخ دین پر ہو گی نہ کہ اصل اور منزل من اللہ دین پر۔ ویسے ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ انہیں اسلام کی دعوت دیں، اسلامی تعلیمات اور ان کی عظمت کا تذکرہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام اور دیگر ادیان باطلہ کے مابین فرق کو واضح کریں۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب