السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اس سال عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہتا ہوں ، مجھے کچھ لوگوں نے بتایا ہے کہ میں عاشوراء کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھوں ، تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی راہنمائي ملتی ہے ۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دس کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنا آپ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
’’روى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قال : حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘ رواه مسلم 1916
سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہيں کہ : جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی رکھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام انہیں کہنے لگے یہودی اور عیسائی تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے ، ابن عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ۔
امام شافعی اور ان کے اصحاب ، امام احمد ،امام اسحاق ، اور دیگر ایل علم کا کہنا ہے کہ :
نو محرم اور یوم عاشوراء یعنی دس محرم دونوں کا روزہ رکھنا مستحب ہے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اور نو محرم کا روزہ رکھنے کی نیت کی ۔
تو اس بنا پر یوم عاشوراء کے مراتب اوردرجات ہیں ،
کم ازکم درجہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے ،
اور اس سے اوپر والا درجہ یہ ہے کہ دس کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جائے ، محرم میں جتنے بھی زیادہ روزے رکھے جائيں گے وہ افضل اور بہتر ہیں ۔
اگر آپ یہ کہیں کہ دس محرم کے ساتھ نومحرم کا روزہ رکھنے میں حکمت کیا ہے ؟
تو اس کا جواب مندرجہ ذیل ہے :
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء کرام نے نومحرم کے روزے کی حکمت میں متعدد وجوھات بیان کی ہیں :
پہلی:
اس سے یہود ونصاری کی مخالفت مقصود ہے ، کہ وہ صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہی مروی ہے ۔
دوسری:
اس کا مقصد ہے کہ یوم عاشوراء کے ساتھ اور روزہ بھی ملایا جائے ، جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ۔
تیسری:
دس محرم کا روزہ رکھنے میں احتیاط کہ کہیں چاند کم دنوں کا نہ ہو ،جس کی بنا پر غلطی ہو جائے اس لیے نومحرم کا روزہ رکھنا عدد میں دس محرم ہوجائے گا ۔ انتھی ۔
ان وجوھات میں سب سے قوی اور صحیح وجہ یہی ہے کہ اہل کتاب کی مخالفت مراد ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری احادیث میں اہل کتاب سے مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے مثلا یوم عاشوراء کے بارہ میں ہی فرمایا کہ :
( اگر میں آئندہ برس زندہ رہا تو نومحرم کا روزہ رکھوں گا ) دیکھیں الفتاوی الکبری ( 6 ) ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اس حدیث پر تعلیق کرتےہوئے کہتے ہيں :
( اگر میں اگلے برس تک باقی رہا تو نومحرم کا روزہ رکھوں گا )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نومحرم کے روزے کا ارادہ اور قصد کیا اس کے معنی میں احتمال ہے کہ صرف نو پرہی منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ دس کا بھی اضافہ کیا جائے گا ، یا تو اس کی احتیاط کے لیے یا پھر یھود و نصاری کی مخالفت کی وجہ سے ، اور یہی راجح ہے جو مسلم کی بعض روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ انتھی ۔
دیکھیں فتح الباری ( 4 / 245 ) ۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب |