السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک عالم سے سنا کہ عورت کے جسم سے نکلنے والی رطوبت پاک ہے۔ میں نے جب سے یہ فتویٰ سنا نماز ادا کرنے کے لیے متاثرہ شلوار نہیں اتارتی تھی۔ عرصہ دراز کے بعد ایک دوسرے عالم سے سنا کہ ایسی رطوبت پلید ہے۔ اس بارے میں درست بات کون سی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبل یا دبر (آگے یا پیچھے والے حصے) سے نکلنے والا پانی وغیرہ ناقض وضو ہے۔ وہ کپڑے یا بدن کو لگ جائے تو اسے دھونا ضروری ہے۔ اگر یہ دائمی امر ہو تو اس کا حکم استحاضہ اور سلسل البول والا ہے۔ یعنی عورت کو استنجاء کرنے کے بعد ہر نماز کے لیے وضو کرنا ہو گا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت سے فرمایا تھا:
(تَوَضَّئِي لِوقت كُلِّ صَلَاةٍ) (رواہ ابوداؤد، کتاب الطھارۃ)
’’ ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کر ۔‘‘
اگر صرف ہوا خارج ہو تو نماز کے لیے وضو کرنا پڑے گا۔ استنجاء کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ رطوبت خارج ہونے کی صورت میں نماز کے وضو کی طرح وضو کرنا ہو گا، یعنی ہاتھ دھونا، کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، منہ دھونا، کہنیوں تک بازو دھونا، سر کا مسح کرنا اور ٹخنوں سمیت پاؤں دھونا۔ یہی حکم سونے، شرم گاہ کو چھونے اور اونٹ کا گوشت کھانے کا ہے۔ ان تمام صورتوں میں وضو کرنا ضروری ہے۔ وبالله التوفيق۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب