سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) استانی کے لئے طالبات کے کھڑا ہونے کا حکم

  • 22091
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 868

سوال

(25) استانی کے لئے طالبات کے کھڑا ہونے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

استانی کے احترام میں طالبات کے کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

استانی یا استاد کے  لیے  طلباء کا احتراما کھڑا ہونا  ناروا ہے۔ اس کا کم از کم حکم شدید کراہت ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں:

(ولم يكن أحد أحب إليهم يعني الصحابة   من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولم يكونوا يقومون له إذا دخل عليهم ، لما يعلمون من كراهته لذلك) (رواہ الترمذی فی کتاب الادب)

’’ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا، مگر اس کے باوجود وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر کھڑے نہ ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند فرماتے ہیں ۔‘‘

اس بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ) (رواہ الترمذی فی کتاب الادب عن معاویہ رضی اللہ عنہ)

’’ جو شخص اپنے  لیے  لوگوں کا کھڑا ہونا پسند کرے اسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہیے ۔‘‘

اس بارے میں عورتوں کا حکم بھی مردوں والا ہی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے غیر پسندیدہ اور منع کردہ اعمال سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے اور سب کو علم و عمل سے نوازے۔ (آمین) شیخ ابن باز

ابتدائی مرحلہ میں عورتوں کے بچوں کو پڑھانے کے خطرات

میں نے وہ مضمون دیکھا ہے جو ’’اخبار المدینۃ ‘‘نے شمارہ 3898 میں 30؍2؍1397ھ کو شائع کیا ہے اور یہ مضمون  ’’  نورہ بنت عبداللہ‘‘کے قلم سے اور ’’ آمنے سامنے‘‘   کے زیر عنوان طبع ہوا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ نورہ مذکورہ خواتین کی ایک مجلس میں جدہ ٹریننگ کالج کی پرنسپل فائزہ دباغ کے ساتھ شریک ہوئی اور اس نے بیان کیا ہے کہ فائزہ نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ عورتیں ابتدائی مرحلہ میں اپنے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاتی حتیٰ کہ وہ انہیں پانچویں جماعت تک بھی نہیں پڑھاتیں، نورہ نے بھی فائزہ کی تائید کی اور ان اسباب کو بھی بیان کیا جس کی وجہ سے خواتین ابتدائی مرحلے کے پانچویں جماعت تک کے بچوں کو بھی پڑھانے کے  لیے  تیار نہیں ہیں۔

میں جہاں نورہ، فائزہ اور ان کی ساتھی خواتین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے وہاں میں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس تجویز کے بہت سے نقصانات اور انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوں گے کہ اگر بچوں کی ابتدائی تعلیم خواتین کے سپرد کر دی جائے تو اس سے بالغ بچوں کے ساتھ خواتین کا اختلاط پیدا ہو گا کیونکہ ابتدائی تعلیم کے مرحلے ہی میں بعض بچے بالغ ہو جاتے ہیں کیونکہ بچہ جب دس سال کا ہو جائے تو وہ بلوغت کے قریب پہنچ جاتا ہے اور وہ طبعی طور پر عورتوں کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس عمر میں اس کے  لیے  یہ ممکن ہے کہ وہ شادی کرے اور وہ کچھ کرے جو مرد کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ عورتوں کا ابتدائی مرحلے میں بچوں کو تعلیم دینا اختلاط تک پہنچائے گا اور پھر یہ اختلاط بعد کے مرحلوں تک بھی پھیل جائے گا اور یہ بلاشبہ تمام مراحل میں اختلاط کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اور معلوم ہے کہ مخلوق تعلیم سے کس قدر خرابیاں اور کس قدر بھیانک نتائج ان ممالک میں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اس نظام تعلیم کو اختیار کیا ہے۔ اسلامی بصیرت رکھنے والا ہر وہ شخص جسے ادلہ شرعیہ اور عصر حاضر میں امت کے حالات کا ادنیٰ سا بھی علم ہو اور وہ ہمارے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کا خواہاں ہو تو وہ بھی اس حقیقت کو یقینا معلوم کرے گا۔ میری رائے میں تو شیطان یا اس کے کسی نمائندے نے مذکورہ فائزہ اور نورہ کی زبان پر یہ تجویز القاء کی ہے جو بلاشبہ ہمارے اور اسلام کے دشمنوں کو خوش کرے گی کیونکہ وہ تو ظاہر اور خفیہ طور پر ہمیشہ اس کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔

میری رائے میں اس دروازے کو انتہائی مضبوطی سے مقفل (بند) کر دینا چاہیے اور ہمارے لڑکوں کو تمام تعلیمی مراحل مرد اساتذہ کے سامنے ہی طے کرنے چاہئیں اور ہماری لڑکیوں کو تمام تعلیمی مراحل خواتین اساتذہ  ہی کے سامنے طے کرنے چاہئیں، اسی سے ہی ہم اپنے دین اور اپنے بیٹے بیٹیوں کی حفاظت کر سکتے ہیں اور رجعت کا طعنہ اپنے دشمنوں پر لوٹا سکتے ہیں اور قابل احترام خواتین اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر مقدور بھر صلاحیتوں کو مکمل اخلاص، صدق اور صبر کے ساتھ بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں صرف کر دیں اور مرد اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر مقدور بھر صلاحیتوں کو مکمل اخلاص، صدق اور صبر کے ساتھ تمام تعلیمی مراحل میں بچوں کو تعلیم دینے میں صرف کر دیں اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ بچوں کے تمام تعلیمی مراحل میں خواتین اساتذہ کی نسبت مرد اساتذہ ہی زیادہ صابر، قوی اور محنتی ثابت ہوتے ہیں اور جیسا کہ یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ بچے خواہ وہ ابتدائی مرحلے کے ہوں یا اوپر کے مراحل کے وہ مرد استاد سے زیادہ  ڈرتے ہیں، اس کا  زیادہ احترام کرتے ہیں اور اس کی بات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور پھر ابتدائی مرحلے میں بچوں کی تربیت اس انداز سے کرنا ہوتی ہے کہ ان میں مردوں کے اخلاق، مردوں کی سی قوت، شجاعت اور صبر پیدا ہو سکے۔ صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

( مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغُوا سَبْعَ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا إِذَا بَلَغُوا عَشْرًا وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ) (مسند احمد، سنن ابی داؤد و مستدرک حاکم وغیرہ)

’’ اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور اگر دس سال کے ہو جائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں سزا دو اور اس عمر میں ان کے بستر بھی الگ الگ کر دو ۔‘‘

یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے کہ تمام مراحل ہی میں بچوں اور بچیوں کی مخلوط تعلیم کے خطرات بہت زیادہ ہیں اور اس سلسلے میں کتاب و سنت اور امت کے حالات و واقعات سے دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ اختصار کی وجہ سے ہم انہیں یہاں ذکر نہیں کرنا چاہتے اور پھر یہ سارے دلائل ہماری حکومت ۔۔ اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا فرمائے ۔۔ عزت مآب وزیر تعلیم اور عزت مآب چیئرمین برائے تعلیم خواتین کے علم میں بھی ہیں، لہذا اس مقام پر انہیں شرح و بسط کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے جس میں ہم سب کی اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود اور نجات ہو اور جس میں ہمارے بچوں اور بچیوں کی دنیا و آخرت کی فلاح و بہبود اور سعادت ہو۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

علم  ،صفحہ:65

محدث فتویٰ

تبصرے