سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) عید الام (جشن مادر) منانے کا حکم

  • 22088
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 813

سوال

(22) عید الام (جشن مادر) منانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ہر سال اکیس مارچ کو ایک خصوصی جشن منایا جاتا ہے جس کا نام عید الام (جشن مادر) ہے اس جشن میں سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ کیا یہ حلال ہے یا حرام؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرعی عیدوں کے علاوہ تمام عیدیں ایسی بدعت ہیں جن کا سلف صالحین میں نام و نشان تک نہ تھا۔ بلکہ بسا اوقات تو ان کا آغاز غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوا، لہذا ایسی عیدیں منانا بدعت کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت بھی ہے۔ شرعی عیدیں مسلمانوں کے ہاں معروف ہیں اور وہ ہیں عید الفطر، عید الاضحیٰ اور جمعۃ المبارک۔ ان تین عیدوں کے علاوہ اسلام میں کسی اور عید کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہر وہ عید جو ان کے علاوہ گھڑی جائے گی وہ گھڑنے والوں کے منہ پر ماری جائے گی اور شریعت میں باطل قرار پائے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ) (متفق علیہ)

’’ جو شخص ہمارے دین میں کسی ایسی نئی چیز کو رواج دے گا جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہو گی ۔‘‘

یعنی وہ اس کے منہ پر  مار دی جائے گی اور اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکے گی۔ دوسری جگہ یوں فرمایا ہے:

(مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ) (صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ و مسند احمد 2؍146)

’’ جو شخص ایسا عمل کرے گا جس پر ہماری تصدیق نہیں تو وہ مردود ہو گا ۔‘‘

جب یہ واضح ہو چکا تو خاتون نے جس عید کے بارے میں سوال کیا ہے اور جس کا نام اس نے ’’ عید الام‘‘   (جشن مادر) بتایا ہے تو اس میں مسرت و شادمانی کا اظہار کرنا اور تحائف وغیرہ پیش کرنا  ناجائز ہے۔ مسلمان کے  لیے  ضروری ہے کہ وہ اپنے دین پر (اکتفا کرے اور اسی پر) نازاں و فرحاں رہے اور اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حدود و قیود متعین فرمائی ہیں ان کا مکمل احترام کرے، ان میں کمی بیشی کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ یہی بات مسلمان کے شایان شان ہے کہ وہ کسی کا دم چھلا بن کر نہ رہے اور نہ ہی غلامانہ ذہنیت کا اظہار کرے۔ اس کی شخصیت شریعت الٰہیہ کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، اسے تابع نہیں بلکہ متبوع، مقتدی نہیں بلکہ مقتدی بن کر رہنا چاہیے۔ الحمدللہ! شریعت اسلامیہ ہر لحاظ سے کامل ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾   (المائدہ 5؍3)

’’  آج میں نے تمہارے  لیے  دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے اور میں نے تمہارے  لیے  دین اسلام کو پسند کیا ہے ۔‘‘

ماں کا حق اس سے کہیں زیادہ ہے کہ بس سال میں ایک بار اس کی یاد منا لی جائے۔ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ شرعی حدود کا احترام کرتے ہوئے ماں کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لائے اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھے۔ شیخ محمد بن صالح عثیمین

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

عقیدہ  ،صفحہ:60

محدث فتویٰ

تبصرے