السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسےشخص کا کیا حکم ہے جو کہتا ہو چونکہ بعض شرعی احکام جدید تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتے لہذا ان پر نظرثانی اور ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال وراثت کی تقسیم کے بارے میں شریعت کا یہ معروف اصول ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہ احکام جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مشروع قرار دیا ہے اور ان کی وضاحت قرآن مجید میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی احادیث مبارکہ میں فرما دی ہے۔ مثلا احکام وراثت، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و دیگر ایسے شرعی احکام جن پر امت کا اجماع ہے تو کسی شخص کو ان پراعتراض کرنے یا ان میں کمی بیشی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ ایسے امور شرعیہ عصر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قیامت تک محکم شریعت کا حکم رکھتے ہیں۔ ان احکام میں وراثت کے حوالے سے مرد کو عورت پر ترجیح بھی شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس امر کی تصریح فرما دی ہے اور علماء امت کا اس پر اجماع بھی ہے، لہذا ایسے احکام پر مکمل اعتقاد اور ایمان کے ساتھ عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ جو شخص ایسے احکام کے برعکس کو موزوں تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ایسے احکام کی مخالفت کو جائز قرار دینے والا بھی کفر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم پر معترض ہے۔ بنا بریں اولو الامر کی ذمہ داری ہے کہ معترض کے مسلمان ہونے کی صورت میں اسے توبہ کرنے کے لیے کہیں۔ اگر وہ توبہ سے انکار کرے تو ایسا شخص کفر و ارتداد کی بناء پر واجب القتل ہے کیونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ) (صحیح البخاری، مسند احمد 1؍2، 5؍231، سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن النسائی و سنن ابن ماجة)
’’ جو شخص مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو ۔‘‘
ہم اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے فتنوں کی گمراہیوں اور شریعت مطہرہ کی مخالفت سے سلامتی کے لیے دعاگو ہیں۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب