السلام عليكم ورحمة الله وبركاته پوتا کو دادا کی وراثت میں سے احناف کے ہاں کچھ نہیں ملتا سوال یہ ہے کہ کسی اور مسلک میں وہ وارث بنتا ہے؟برائے مہربانی جتنی جلدی ہو سکے جواب دے کر مشکور ہوں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! موجودہ دور میں وراثت کے متعلق جس مسئلے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ میت کی اپنی حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے یتیم پوتے پوتی اور نواسے نواسی کی میراث کا مسئلہ ہے۔ اس کی بے چارگی اور محتاجی کو بنیاد بنا کر اسے بہت اچھالا گیا ہے، حالانکہ اس مسئلے میں رسول اللہﷺ کے عہد مبارک سے لے کر بیسویں صدی تک کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ دادا یا نانا کے انتقال پر اگر اس کا بیٹا موجود ہو تو اس کے دوسرے مرحوم بیٹے یا بیٹی کی اولاد کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ اس مسئلے میں نہ صرف مشہور فقہی مذاہب، حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نیز شیعہ، امامیہ، زیدیہ اور ظاہریہ سب متفق ہیں بلکہ غیر معروف ائمہ و فقہا کا بھی اس کے خلاف کوئی قول منقول نہیں، البتہ حکومت پاکستان نے 1961ء میں مارشل لاء کا ایک آرڈیننس جاری کیا، جس کے تحت یہ قانون نافذ کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اپنے پیچھے ایسے لڑکے یا لڑکی کی اولاد چھوڑ جائے جس نے اس کی زندگی میں وفات پائی ہو تو مرحوم یا مرحومہ کی اولاد دیگر بیٹوں کی موجودگی میں اس حصے کو پانے کی حقدار ہو گی جو ان کے باپ یا ماں کو ملتا، اگر وہ اس شخص کی وفات کے وقت زندہ ہوتے۔ پاکستان میں اس قانون کے خلافِ شریعت ہونے کے متعلق عظیم اکثریت نے دو ٹوک فیصلہ کر دیا تھا کہ یہ قانون امت مسلمہ کے اجتماعی نقطہ نظر کے خلاف ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے۔ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے۔‘‘النساء 11:4 اس آیتِ کریمہ میں لفظ اولاد، ولد کی جمع ہے جو جنے ہوئے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں لفظ ولد دو طرح سے مستعمل ہے: 1۔حقیقی، جو بلاواسطہ جنا ہوا ہو، یعنی بیٹا اور بیٹی۔ 2۔مجازی، جو کسی واسطے سے جنا ہوا ہو، یعنی پوتا اور پوتی۔ بیٹیوں کی اولاد، یعنی نواسی اور نواسے اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہی نہیں ہیں کیونکہ نسب باپ سے ملتا ہے۔ اس بنا پر نواسا اور نواسی لفظ ولد کی تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ نیز یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک حقیقی معنی کا وجود ہو گا مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہے، یعنی لفظ ولد کے حقیقی معنی بیٹے اور بیٹی کی موجودگی میں پوتا اور پوتی مراد نہیں لیے جا سکتے، لہٰذا آیتِ کریمہ کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حقیقی بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے پوتی کا کوئی حق نہیں ہے، خواہ وہ پوتا پوتی زندہ بیٹے سے ہوں یا مرحوم بیٹے سے۔ اس کے متعلق امام جَصّاص اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’امت کے اہلِ علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حق تعالیٰ کے مذکورہ ارشاد میں صرف اولاد مراد ہے اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پوتا، حقیقی بیٹے کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہے اور نہ اس میں اختلاف ہے کہ اگر حقیقی بیٹا موجود نہ ہو تو اس سے مراد بیٹوں کی اولاد ہے بیٹیوں کی نہیں، لہٰذا یہ لفظ صلبی اولاد کے لیے ہے اور جب صلبی نہ ہو تو بیٹے کی اولاد اس میں شامل ہے۔ أحکام القرآن: 96/2 ا س سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ترجمہ: ’’وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچ جائے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مذکر کے لیے ہے۔‘‘صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث الولد من أبیہ وأمِّہٖ، حدیث: 6732 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقررہ حصہ لینے والوں کے بعد وہ وارث ہو گا جو میت سے قریب تر ہو گا، چنانچہ بیٹا، درجے کے اعتبار سے پوتے کی نسبت قریب تر ہے، اس لیے پوتے کے مقابلے میں بیٹا وارث ہو گا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے واضح طور پر فرمایا کہ پوتا بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہو گا۔ اس پر امام بخاری نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ترجمہ: ’’پوتے کی وراثت جبکہ بیٹا موجود نہ ہو۔‘‘ صحیح البخاري، الفرائض، باب : 7 شریعت نے وراثت کے سلسلے میں الأقرب فالأ قرب کے قانون کو پسند کیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: ’’ہر ایک کے لیے ہم نے اس ترکے کے وارث بنائے ہیں جسے والدین اور قریب تر رشتہ دار چھوڑ جائیں۔‘‘ النساء 33:4 اس آیتِ کریمہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محروم ہو گا، لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وراثت سے حصہ نہیں پائے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اسلام نے وراثت کے سلسلے میں رشتہ داروں کے فقر و احتیاج اور ان کی بے چارگی کو بنیاد نہیں بنایا جیسا کہ یتیم پوتے کے متعلق اس قسم کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ مستقبل میں مالی معاملات کے متعلق ان کی ذمہ داری کو بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی کا محتاج اور بے بس ہونا بنیاد ہوتا تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملنا چاہیے تھا کیونکہ لڑکے کے مقابلے میں لڑکی مال و دولت کی زیادہ حاجت مند ہے اور اس کی بے چارگی کے سبب میت کے مال میں اسے زیادہ حقدار قرار دیا جانا چاہیے تھا، جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ وراثت میں حاجت مندی، عدمِ کسب معاش یا بے چارگی قطعاً ملحوظ نہیں ہے۔ البتہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا ہے کہ مرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنے یتیم پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں اور دیگر غیر وارث حاجت مند رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے اپنے ترکہ سے کی وصیت کر جائے۔ اگر کوئی یتیم پوتے پوتیوں کے موجود ہوتے ہوئے دیگر غیر وارث افراد یا کسی خیراتی ادارے کے لیے وصیت کرتا ہے تو حاکمِ وقت کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اسے ان کے حق میں کالعدم قرار دے کر حاجت مند یتیم پوتے، پوتیوں کے حق میں اس وصیت کو نافذ قرار دے۔ ہاں اگر دادا نے اپنی زندگی میں یتیم پوتے پوتیوں کو بذریعہ ہبہ ترکے کا کچھ حصہ پہلے ہی دے دیا ہے تو اس صورت میں وصیت کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اسے عملاً نافذ کر دیا جائے۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |