السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تارک نماز کے حج کے بارے میں کیا حکم ہے چاہے قصداً نماز نہ پڑھتا ہو یا سستی کی وجہ سے ؟ اور کیا اس کا حج فرض حج کے لیے کافی ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر تارک نماز، نماز کے وجوب کا منکر ہے تو باجماع امت کافر ہے اور اس کا حج صحیح نہیں ہو گا اور اگر سستی اور کاہلی کیوجہ سے نہیں پڑھتا توعلماء امت کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ اس کا حج صحیح ہے اور بعض کے نزدیک صحیح نہیں ،صحیح رائے یہی ہے کہ اس کا حج صحیح نہیں، اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ "ہمارے اور کافروں کے درمیان وجہ امتیاز نماز ہے اس لیے جس نے نماز چھوڑ دی وہ کافر ہو گیا۔" اور یہ بھی فرمایا: "آدمی اور کفرو شرک کے درمیان حد فاصل نماز ہے۔’’اور یہ حکم عام ہے چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے وجوب کا منکر ہو یا سستی کی وجہ سے نہ پڑھتا ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب