السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کسی شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ ڈاکٹرکو اجازت دے کہ وہ اپنا پانی اس کی بیوی میں منتقل کرے؟(فتاوی الامارات:69)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نہیں قطعاً جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس منتقلی میں کم ازکم یہ تو لازم آئے گا کہ داکٹر کے سامنے اس کی بیوی کا ستر کھلے گا اور اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں کے پوشیدہ معاملات پہ مطلع ہونا جائز نہیں ہے اور جو چیز شرعاً جائز نہیں ہے۔ ضرورت کی وجہ سے اس کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ ضرورت کے مطابق اور ہم تصور نہیں کر سکتے کہ یہاں اس شخص کی ضرورت کی وجہ سے ہم اس طرح کے حرام طریقہ سے اس کے لیے پانی منتقل کرنا جائز قراردیں کیونکہ بسااوقات ڈاکٹر مطلع ہو جاتا ہے۔ آدمی کی ستر کی جگہ پر اور یہ جائز نہیں ہے۔
اور اس طریقہ پر چلنا یہ یورپ والوں کی تقلید ہے۔ ہر اس چیز میں کہ پروہ آتے ہیں اور جسے وہ چھوڑتے ہیں اور اس انسان کو گویا کہ اولاد طبی طریقہ سے نہیں دی گئی۔مطلب کا یہ انسان اللہ کے فیصلہ پر خوش نہیں ہوا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب مسلمانوں کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ حلال و جائز طریقہ سے رزق حاصل کرو تو اس سے کہیں زیادہ اس کی ضرورت ہے کہ حلال و جائز طریقہ سے اولاد حاصل کی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب