سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) ٹیلی ویژن پر عورت کی تصویر دیکھنا

  • 22009
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1104

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ٹیلی ویژن اور وسائل میں عورتوں کی تصاویر  دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہ جس میں یہ ہے کہ وہ حبشیوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا کرتی تھی۔(فتاوی الامارات:108)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض لوگ عورت کی تصویر دیکھنے کو مباح سمجھتے ہیں کہ تصویر دیکھنے کا مطلب ایک خیال ہے۔ عورت کی شخصیت کی طرف دیکھنا حقیقت کو دیکھنا ہے۔

حقیقت یہ کہ یہ حیلہ بازی ہے۔ ورنہ عورت کی تصویر میں ٹیلی ویژن کی تصویر میں اور حقیقی عورت دیکھنے میں کیا فرق ہے؟ فقہاء کہتے ہیں عورت کی تصویر دیکھنا کیوں حرام ہے؟ وہ کہتے ہیں فتنہ کے ڈر سے اور یہ فتنہ عورت کی تصویر میں بھی ہے اور شخصیت میں بھی ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا حبشیوں کی طرف دیکھنا تو یہ ان کو معاف ہے اور اگر کوئی اور دیکھے تو اسے بھی معاف ہے کیونکہ ایسی صورت میں کھیل کی طرف دیکھ رہی تھی نہ کہ ان لوگوں کی شخصیت کی طرف۔ گویا یہ عورت لڑائی کے معرکہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ایسی صورت میں عورت پر کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ فتنہ کا خوف نہیں ہے۔

اس وقت یہ حدیث اس قرآنی نص:

﴿ قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ...﴿٣٠﴾... سورة النور

"مومنوں سے کہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔

اور دوسرا فرمان:

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور

"کہ مومن عورتوں سے کہہ دو وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ "تو یہاں نظر سے مراددلی ارادہ ہے اگر برے ارادہ سے دیکھنا مقصود ہو تو اس کا یہ حکم ہے۔ اگر حسن اتفاق سے نظر پڑ جائے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے۔

جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے "علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ"

"وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يَا عَلِيُّ لا تُتْبِعْ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَكَ الأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الآخِرَةُ"

’’اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نظر پیچھے نظر نہ لگابے شک پہلی بار دیکھنا تو جائز ہے اور دوسری بار دیکھنا تیرے خلاف حجت ہے۔‘‘

یعنی جس شخص نے نظر گھما کہ عورت کی ذات کی طرف دیکھا تو یہ فتنہ شمار ہوگا خثعمیہ  عورت کی جو حدیث "بخاری" میں ہے کہ جب وہ کھڑی ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھ رہی تھی کہ فریضۃ حج نے میرے باپ کو پالیا حالانکہ وہ خود بوڑھے ہیں۔ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے ۔ تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے کہا "فحجي عنها"تم اس کی طرف سے حج کر لو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے سواری پر فضل بن عباس بیٹھے تھےتو فضل اس عورت کو دیکھ رہا ہے۔ عورت فضل کو دیکھنے لگ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیردیتے تھےکہ کہیں ان دونوں کے درمیان شیطان داخل نہ ہو جائے ۔

جس طرح مرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ تکرار کے ساتھ عورت کی طرف دیکھے۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ تکرار کے ساتھ کسی مرد کی طرف دیکھے۔ سوائے نکاح کے پیغام کے وقت کے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

عورتوں کے مخصوص مسائل صفحہ:312

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ