سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(237) عورتوں کے چہرے کے پردے کا حکم

  • 22002
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 891

سوال

(237) عورتوں کے چہرے کے پردے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کے چہرے کے پردے کا کیا حکم ہے؟(فتاوی المدینہ:10)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم صحابہ میں سے کسی کو نہیں جانتے کہ کسی نے اس کو واجب  قراردیا ہو۔ عورت پر۔ لیکن عورت کے لیے بہتر افضل یہ ہے کہ اپنے چہرے کو ڈھانپیں۔ باقی وجوب کے حوالہ سے ایسی کوئی دلیل شریعت میں ثابت نہیں ہے۔ تو کسی شخص کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اسے واجب قراردے۔ اس لیے میں نے اپنی کتاب "حجاب المراۃ المسلمۃ"میں ایک فصل باندھ کر ان لوگوں کا رد کیا کہ جو چہرے کے پردہ کو بدعت کہتے ہیں اور میں نے واضح کیا کہ یہ افضل ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے صریح نص کے ساتھ ثابت ہے کہ چہرہ اور دونوں کف یہ ستر ہیں کہ جسے ابن ابی شبہ کی روایت ہے۔"مصنف " میں۔

ہم کوئی نئی چیز نہیں لائے ۔ سلف صالحین اور مفسرین میں سے بھی علماء کا یہ مؤقف ہے جسے ابن جریر طبری وغیرہ کا چہرہ اور کف ستر میں شامل نہیں ہے لیکن افضل یہ ہے کہ ان کو ڈھانپنا چاہیے۔

بعض چہرے کے پردے کے وجوب کے لیے ایک اصولی قاعدہ سے دلیل پکڑتےہیں۔ کہ"درء المفاسد مقدم على جلب المصالح"میں کہتا ہوں کہ یہ قعدہ نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ قاعدہ بھی شریعت سے ماخوذ ہے جس شخصیت پر وحی نازل ہوئی وہ رسول ہے اور وہ لوگ جنہوں نے ان سے یہ شریعت سیکھی بلا شبہ وہ اس قاعدہ کو سمجھنے والے تھے۔ اگرچہ انھوں نے اس قاعدہ کو ہمارے جوڑا اور تعبیر نہیں کیا ۔"حجاب المراۃ المسلمۃ " میں ہم نے بنو خثیمہ کی اس عورت کا واقعہ کی اس عورت کا واقعہ بھی ذکر کیا ہے جس میں یہ ہے کہ فضل بن عباس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔وہ اس عورت کی طرف دیکھ رہے تھے اور عورت ان کی طرف  دیکھ رہی تھی جبکہ فضل خوبصورت تھے اور وہ عورت بھی خوبصورت تھی اگر چہرے کا پردہ فرض ہوتا تو کیسے معلوم ہوتا کہ وہ عورت خوبصورت تھی۔ کیونکہ چہرہ مطلق ڈھانپنا ہوتا اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اور فضل کے چہرے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  دوسری طرف ہٹا رہے ہیں تو معنی یہ ہوا کہ اس عورت کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔

بعض نے یہ جواب دیا کہ وہ عورت احرام میں تھی تو احرام کی حالت میں چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔ باوجودیکہ اس حدیث میں ایسی کوئی نص نہیں ہے کہ وہ احرام میں تھی اور میں نے اپنی کتاب میں تحقیق کے ساتھ یہ بات لکھی ہے کہ یوم النحر کو جمعرات کو کنکریاں مارنے اور پہلی حلت حاصل ہو جانے کے بعد کی بات ہے۔تو بالفرض اگر ہم تسلیم کر لیں کہ وہ عورت حالت احرام میں تھی تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہاں اس قاعدہ کو کیوں فٹ نہیں کیا؟درء المفاسد ؟شرعی لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں کہ مرد عورت کی طرف دیکھے یا عورت مرد کی طرف دیکھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان دونوں کے لیے الگ الگ ہے:

﴿ل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم...﴿٣٠﴾... سورة النور

’’یعنی عورتوں سے کہا اپنی نگاہوں کو جھکارکھے۔‘‘

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور

یعنی مردوں کو دیکھنے سے وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں۔

تو جو امر دوسری آیت میں ہے،وہی امر پہلے والی آیت میں بھی ہے۔ اپنی وجوبی طور پر اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں۔

دوسری آیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ مرد اپنے چہرے وجوبی طور پر عورتوں سے چھپائیں ۔اسی طرح اس دوسری آیت سے یہ مراد نہیں ہے۔عورتیں اپنے چہرے کو وجوبی طور پر اپنے چہروں کو ڈھانپ کر رکھیں۔

تو یہ دونوں آیتیں صریح ہیں کہ یہاں کوئی ایسی چیز ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مرد اورعورت دونوں کو نظریں جھکانے کا حکم دے رہے ہیں اور یہ جو حدیث ہے "المراۃعورۃ"عورت پردہ ہے۔

تو یہ حدیث اطلاق پر محمول نہیں ہو گی۔ تو پھر عورت کے لیے کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ نماز کے دوران وہ اپنے پردے کو ظاہر کرے۔ بہت کم علماء یہ کہتے ہیں کہ عورت کا چہرہ پردہ ہے اور جمہور یہ کہتے ہیں عورت کا چہرہ پردہ نہیں ہے۔ دوسری ایک حدیث ہے۔

"الْمَرْأَةَ عَوْرَةٌ ، فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ"

اس حدیث سے مطلقاً یہ قاعدہ سمجھ میں نہیں آتا۔

ہر وہ نص کہ جس کے تحت بہت سارے اجزا داخل ہوں۔ تو اس کے دوسرے اجزا کو چھوڑ کر صرف ایک جز پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ تو جائز نہیں ہے کہ ہم اس کے لیے عام نص سے حجت پکڑیں اور اسے دوسرے اجزا میں شامل کریں تو بہر حال یہ کہنا کہ:

"المرأة عورة " کہ اس میں چہرہ اور ہاتھ شامل ہے یہ سلف کا عمل اس کے برخلاف نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

عورتوں کے مخصوص مسائل صفحہ:306

محدث فتویٰ

تبصرے