السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورتوں کے لیے قبرستان جانے کا کیا حکم ہے؟(فتاوی المدینہ:62)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورتیں مردوں کی طرح ہیں۔
تو جو مردوں کے لیے جائز ہے وہ عورتوں کے لیے بھی جائز ہے اور جو مردوں کے لیے مستحب ہے وہ عورتوں کے لیے بھی مستحب ہے مگر کسی چیز کوکوئی خاص دلیل مستثنیٰ کرے۔ عورتوں کے متعلق الگ خاص کوئی حدیث نہیں ہے کہ جس میں عمومی طور پر عورتوں کے لیے جانا قبرستان میں حرام قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قصہ معروف ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بستر سے اتر کر چلے گئے اور بقیع قبرستان کی طرف گئے تاکہ مردوں کے لیے سلامتی کی دعا کریں تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ان کے پیچھے پیچھے چلی گئیں۔ پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو وہ بھی پلٹی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز تیز چلنے لگے تو یہ بھی تیز چلی۔ یہاں تک کہ بستر پر پہنچ گئی اور وہ عائشہ تیز تیز سانس لے رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجھے کیا ہو گیا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ سے فرمانے لگے۔
"ثُمَّ قَالَ: أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ ، قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللهُ ، نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي ، فَأَخْفَاهُ مِنْكِ ، فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ ، وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي ، فَقَالَ : إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ ، فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ ،"
"کیا تم نے یہ گمان کیا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے بے شک جبریل علیہ السلام میرے پاس ابھی ابھی آئے اور انھوں نے کہا کہ تمھارا رب تمھیں سلام کہہ رہا تھا اور آپ کے نام حکم دیا کہ آپ بقیع میں آئیں اور ان کے لیے استغفار کریں۔ صحیح کے علاوہ ایک اور روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا میں کہاں اور آپ کہاں۔ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !پھر کہنے لگی جس طرح صحیح مسلم میں ہے کہ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میں قبروں کی زیارت کرنے کے لیے جاؤں تو کیا کہوں؟"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قولی۔"پھر وہ معروف دعا ذکر کی۔
دوسری جو حدیث ہے:
" لَعَنَ اللهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ "
کہ قبروں کی زیارت کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ تو یہ آپ کا فرمان مکی دور کا ہے۔ کیونکہ ایک معروف حدیث :
"كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيارَة القُبُورِ فَزُوروها"
’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت کرنے سے روکا تھا تو تم اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘
بلا شبہ مدینہ میں منع نہیں ہے بلکہ منع مکہ میں تھی۔ کیونکہ اس وقت نئے نئے مسلمان ہوئے تھے تو مدینہ میں اس منع کا تصور بھی نہیں ہے کیونکہ شرک کا امکان ہی نہیں تھا۔ "فَزُوروها" تو ممکن ہے کہ یہ مکہ کے بارے میں ہو چاہےمکہ میں ہو یا مدینہ میں ہو تو اجازت کے بعد۔ اس کے ساتھ اس پر کچھ احکام مرتب ہوتے ہیں۔
بہر حال راجح یہ ہے کہ قبروں کی زیارت سے مکی زندگی میں روکا گیا تھا پھر مکی عہد کے آخر میں اور مدنی عہد کے شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فَزُوروها"
اس تمہید کے بعد اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نہی جو ہے یہ مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہے اور اجازت بھی اسی طرح مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہے۔ جب اس کا حکم اسی طرح ہے:
" لَعَنَ اللهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ "
"یہ حدیث کب آئی اگر تو اجازت کے بعد آئی تو اس کا معنی یہ ہے کہ فسخ حکم دو مرتبہ ہوا عورتوں کی نسبت اور اسے ہم منسوخ احکام میں سے شمار نہیں کرتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے:" لَعَنَ اللهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ ""فرمایا تو اس کے بعد مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اجازت دے دی۔ ورنہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کا محل کیا ہوگا؟ اگر یہ کہا جائے کہ یہ منع پہلے کی ہے تو ہمارے نزدیک بھی یہی بات راجح ہو گی تو ہم کہیں گے کہ یہ خاص نہیں ہے اور عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ خاص صورت حال میں اور اس میں قبروں کی زیارت سے منع میں مبالغہ ہے۔ وگرنہ نہ قبروں کی زیارت عورتوں پر حرام کے لیے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب