سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) ’قسم حلال کرنے کے برابر‘ اس کا کیا معنی ہے؟

  • 21992
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 962

سوال

(227) ’قسم حلال کرنے کے برابر‘ اس کا کیا معنی ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پہلے ایک سوال میں ذکر کیا گیا کہ "لَنْ تَمَسّنَا النَّار إِلَّا تَحِلَّة الْقَسَم" ہرگز نہیں اسے آگ چھوئے گی مگر قسم حلال کرنے کے برابر۔قسم حلال کرنے کے برابر اس کا کیا معنی ہے؟(فتاویٰ الامارات:32)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث میں اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف

﴿وَإِن مِنكُم إِلّا وارِدُها كانَ عَلىٰ رَبِّكَ حَتمًا مَقضِيًّا ﴿٧١﴾... سورة مريم

کہ تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہونے والا ہے اور یہ فیصلہ حتمی ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم ہے۔ اس وارد ہونے سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں علماء کے مابین تین قول ہیں:

پہلاقول : درود کا معنی ہے’’ آگ کے کونے سے‘‘

دوسرا قول:آگ کے اوپر پل صراط پہ گزرنا۔

تیسرا قول :آگ میں داخل ہونا اور یہ دوسرے قول کے منافی نہیں ہے کیونکہ پل صراط پر گزرنا آگ میں داخل ہونا ہے اور اس کلام کی مزید تائید جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے ہوتی ہے۔ لیکن حدیث سند کے لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔ اپنی شہرت کے باوجود اس حدیث کو بعض تابعین مجہول لوگوں سے روایت کرتے ہیں۔ حدیث کے ضعف کی علت یہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس آیت "وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا" کا ذکر چلا تو ہمارا آپس میں اختلاف ہو گیا۔ تو جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فوراً اپنی انگلیاں اپنے کانوں پر رکھیں اور کہنے لگے کہ یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ بات سنی ہو۔ فرمانے لگے:

"لَا يَبْقَى بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ إِلَّا دَخَلَهَا فَتَكُونُ عَلَى الْمُؤْمِنِ بَرْدًا وَسَلَامًا كَمَا كَانَتْ عَلَى إِبْرَاهِيمَ "

نہ کوئی نیک رہےگا۔نہ کوئی گناہ گار مگر وہ اس آگ میں ضرور داخل ہوگا پھر وہ آگ ان پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جائے گی کہ جس طرح ابراہیم علیہ السلام  پر ٹھنڈی ہوئی تھی ۔

"مسلم" میں ایک حدیث ہے۔ حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے۔ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ، وَأَهْلُ بَيْعَةِ الشَّجَرَةِ، للَا يَدْخُلُ النَّارَ أحد"

کہ آگ میں بدروالوں اور بیعت رضوان والوں میں سے کوئی داخل نہیں ہو گا۔

کہتی ہے کیسے اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَإِن مِنكُم إِلّا وارِدُها ...﴿٧١﴾... سورة مريم

تو آپ نے ان سے فرمایا کہ:

اس کے بعد بھی پڑھو ۔

﴿ثُمَّ نُنَجِّى الَّذينَ اتَّقَوا وَنَذَرُ الظّـٰلِمينَ فيها جِثِيًّا ﴿٧٢﴾... سورة مريم

"پھر ہم ڈرنے والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گھسیٹیں گے۔"

ہم اس سے استدلال کر سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کوئی بات سن کر بھی اس کا انکار نہ کریں تو یہ خود بخود اس بات کی درستگی دلیل بن جائے گی۔لیکن ممکن ہے کہ اس میں تحصیص و تنقید داخل ہو۔ یہ ایک عظیم اور باریک بینی والا فائدہ ہے لیکن ابن حزم اس سے مطلع نہیں ہوئے ۔ تو اس لیے انھوں نے ایک کتابچہ لکھا کہ جس میں موسیقی اور گانے کے آلات کو انھوں نے جائز قراردیا اور ان کی دلیل یہ تھی" کہ جو " بخاری و مسلم " میں ایک حدیث ہے۔ عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس آئے تو میرے پاس دو بچیاں بیٹھ کر بعاث جنگ کے اشعار پڑھ رہی تھیں اور دف بجا رہی تھیں۔ تو جب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  گھر میں داخل ہوئے تو فرمانے لگے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر میں شیطانی باجے؟ تو آپ نے فرمایا:

"دعهما فإن لكل قوم عيد وهذا عيدنا"

ان کو چھوڑ دو بے شک ہر قوم کے لیے ایک عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہماری عید کا دن ہے۔ تو امام ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث سے دف اور گانے کے جواز پر دلیل لی ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان دونوں بچیوں کو برقرار رکھا تھا لیکن ان سے یہ بات فوت ہو گئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے الفاظ "أمزمار الشيطان" کو بھی برقرارکھا۔ تو اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حفصہ کو بھی "كيف يارسول الله صلي الله عليه وسلم" ،"وَإِن مِّنكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا" پر بھی اسی طرح برقرار رکھا ہوگا۔ تو اب ہم جمع کریں دونوں کی بات تو "مزمار الشيطان""ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان "دعهما فإن لكل قوم عيدا"کے درمیان تو نتیجہ خود بخود نکل آئے گا کہ جائز نہیں ہے۔ منع ہونے کے لحاظ سے ان آلات کا شیطان کی طرف سے منسوب ہونا ہی کافی ہے۔ لیکن عید والے دن بچیوں کا دف بجانا اس سے مستثنیٰ ہے۔ اسی طرح کی استشیات میں سے ایک استثناء یہ بھی ہے کہ جو صحیح حدیث میں آئی ہے۔ شادی میں دف وغیرہ بجانا جائز ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

 "وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ"

کہ ان پر دف بجاؤ۔صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں شادیوں میں دف بجایا کرتے تھے"اس مسئلہ کو بھی میں نے تفصیل سے اپنی کتاب آداب الزفاف فی السنہ المطہرۃ" میں بیان کیا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

احادیث کے علل اور روایات پر نقد کا بیان    صفحہ:295

محدث فتویٰ

تبصرے