السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ جس سے دلیل لی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں:
﴿وَلَقَد هَمَّت بِهِ وَهَمَّ بِها لَولا أَن رَءا بُرهـٰنَ رَبِّهِ ...﴿٢٤﴾... سورة يوسف
اور بعض تفسیروں میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف جو قول منسوب ہے اس کا کیا حکم ہے؟ (فتاویٰ المدینہ:43)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر لوگوں سے اس کے بارے میں جو روایات آتی ہیں وہ سب کی سب اسرائیلیات ہیں کہ جو یوسف علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں لیکن کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ انہیں یوسف علیہ السلام کی طرف منسوب کرے۔ اس آیت کی تفسیر میں علماء کے دو قول ایسے ہیں کہ جو قابل التفات ہیں۔ پہلا قول :"وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ" سے مراد برائی ہے اور "وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ" سے مراد "ماهم"یعنی یوسف نے برائی نہیں کی تو اس سے یوسف علیہ السلام کی عزت وعصمت ثابت ہو جاتی ہے اور یہی قول معتمد ہے۔کیونکہ سلف سے بھی یہی بات مروی ہے۔
دوسرا قول : کہ جس کی نسبت یوسف علیہ السلام کی طرف کی جاتی ہے کہ جو یوسف علیہ السلام کی عصمت کے منافی نہیں ہے بلکہ عصمت ہی کو مزید تاکید سے ثابت کرنا ہے لیکن یہ نیا قول ہے کہ جو سلف سے منقول ہی نہیں ہے اور وہ یہ کہ"وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ" سے مراد برائی ہے اور"وَهَمَّ بِهَا" سے مراد اس عورت کو مارنا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب