السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ابو داود رحمۃ اللہ علیہ پر جو مختصر منذری نے لکھی پھر اس میں ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیقات ہیں تو جن احادیث پر امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت اختیار کیا پھر اسی طرح منذری اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے تو کیا اس سکوت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان آئمہ کی خاموشی تحقیق کرنے والے کے لیے باعث اطمینان بن سکے ان احادیث کے بارے میں یا کم ازکم ان احادیث کو حسن کہا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ (فتاوی المدینہ: 47)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض تحقیق کرنے والے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر چہ حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔ لیکن تنقید ایک ایسا موضوع ہے کہ جو بحث کرنے والے کو صرف ان کی خاموشی کی وجہ سے خاموش رہنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ حقیقتاً ثابت ہے کہ یہ تینوں آئمہ بسااوقات حدیث کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں لیکن ناقداس حدیث کو ضعیف کہہ دیتا ہے۔
لیکن ابتدائی بحث کرنے والا مثلاً یا جو شخص تحقیق کی متابعت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے لیے بھی ہے کہ وہ خاموش رہے اور ان پر اعتماد کرے۔ ہاں مگر جب اس کے پاس احادیث پر تنقید کرنے کا ملکہ آجائے تو پھر تنقید کرے۔ لیکن شرعی تعلیمات خصوصاً حدیث کا طالب علم کتنے طالب ان لوگوں کی نسبت طاقت رکھتے ہیں کہ وہ انفرادی طور پر بحث کرے کہ جس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ حسن کہتے ہیں اس کا نتیجہ ضعف کی صورت میں نکالتے ہیں؟ ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں تو پھر جمہور کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب