السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا علوم الحدیث کے قواعد میں سے کوئی ایسا بھی ہے کہ جو ظنی ہو؟(فتاوی المدینہ: 74)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حقیقت یہ ہے کہ بعض قواعد قطعی ہیں اور بعض ظنی ہیں لیکن ہمارا یہ قول کہ ظنی ہے۔ اس سے اس حکم کی قدر و قیمت میں کوئی کمی نہیں آتی جس طرح کہ بہت ساری فقہی احکام میں یہ چلتا ہے۔ لیکن بعض فقہی مسائل کا ظنی ہونا اور قطعی نہ ہونا اس کی قدرو قیمت کم نہیں کرتا۔جیسا کہ یہی حالت ہے۔ بہت سارے فقہی احکامات میں سے ہے لیکن بعض فقہی مسائل ظنی ہیں قطعی نہیں ہے۔ تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم ان کو حلال نہ سمجھیں اور ان سے اعراض کریں کہ جس طرح آج کل بہت ساری اسلامی تحریکیں جہالت کی وجہ سے ایسا کرتی ہیں۔"حزب التحریر اسلامی"وغیرہ کہ وہ آحاد حدیثوں سے عقیدہ ثابت نہیں کرتے کیونکہ آحاد علم قطعی کا فائدہ نہیں دیتیں بلکہ وہ تو ظنی ہیں۔ تو یہ ان کی جہالت اور اصول فقہ و حدیث سے دوری کا نتیجہ ہے کہ وہ صرف ’’ظنی‘‘کلمہ سننے کے ساتھ ہی ان کے دل سکڑ جاتے ہیں باوجود یہ کہ شریعت کے اکثر احکام ظنی طور پر ثابت ہیں۔ تو دلیل کا ظنی ہونا یہ مطلب نہیں کہ اب اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے کیونکہ ظنی سے ان کی مراد غالب گمان ہے۔ یعنی ایسا گمان کہ اس کے بعد یقین ہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب