سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) امام ترمذی کے قول’ حسن صحیح‘ حسن غریب‘ سے مراد

  • 21964
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 19312

سوال

(199) امام ترمذی کے قول’ حسن صحیح‘ حسن غریب‘ سے مراد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کے قول’’حسن صحیح‘‘’’حسن غریب‘‘ ھذا حدیث غریب"سے کیا مراد ہے؟(فتاوی المدینہ:45)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کا قول "حسن صحیح "یہ سب سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس قول کی تو جیہہ ذکر کرنے میں علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن اس اختلاف کے باوجود اطمینان کے لائق اس میں میں نے کوئی بھی قول نہیں پایا۔ قابل اعتماد بات یہی ہے کہ یہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک اصطلاح کہ جس پر وہ چلے لیکن اس کی وضاحت انھوں نے نہیں کی۔"حسن غریب"پر قول واضح "حدیث حسن"کے برخلاف ہے یعنی "حسن سنداً"مطلب سند کے اعتبار سے حسن ہے اور غریب اس لحاظ سے ہے۔ کہ اس کے رواۃ میں سے ایک راوی متفرد ہے۔ چاہے۔"تفرد مطلق "ہو یا"تفرد نسبی"ہو لیکن اگر کسی حدیث کے بارے میں" حسن"کہیں اور حسن کے ساتھ غریب کا لفظ ملا ہوا نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ یہ حدیث حسن لغیرہ ہے۔ تو طالب علم پر لازم ہے کہ اس نکتہ کے بارے میں متنبہ ہو۔ یعنی جس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ "حدیث حسن"کہے تو اس سے مراد ایسی حدیث کہ جو سنداً ضعیف ہے۔ تو وہ "حسن " تب ہو گی کہ جب اس کے لیے متابعات اور شواہدوں اور اس کے ساتھ یہ حدیث ضعیف سے حسن کے درجہ کو پہنچ جاتی۔ ہے۔ کیونکہ اس کا متن ایک اور سند سے آجاتا ہےاگر صرف "حدیث غریب" کہیں تو اکثر ایسی حدیث سنداً ضعیف ہوتی ہیں۔

اس کے مقابلہ میں ایک اور حدیث ہے۔‘‘ ترمذی(6778) میں:

"عَن نَبْهَانُ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ ،عَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ....."

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں"حدیث حسن صحیح"میں کہتا ہوں کہ بنہان مجہول ہے۔ اس بنہان کو کسی معتبر محدث نے ثقہ نہیں کہا۔ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔"امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا قول" حسن غریب" تو اس کے بارے میں میں نے البانی سے کسی کیسٹ میں سنا فرماتے ہیں کہ اس سے ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کی مراد "حسن لذالہ"ہےیہ بات اس کے برخلاف ہے کہ جو انھوں نے یہاں کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نےالنکت(8/402)میں فرمایا"کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا مقصد یہ ہے کہ جب وہ کسی حدیث کے بارے میں حسن کہیں تو ان کے نزدیک اس حدیث سے دلیل پکڑنا لازمی نہیں ہے انھوں نے ایک حدیث بیان کی ہے۔

خثیمہ البصری عن الحسن عن عمران بن حصین کے طریق سے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ:

"هذا حديث حسَنٌ، ليس إسناده بذاك القائم"

تو ظاہر یہ ہو تا ہے کہ حسن کی تعریف سے ان کی مراد’’العلل‘‘نہیں۔ انھوں نے وضاحت کی ہے کہ ایسی چیز کا بیان کہ جو بعض علماء کے نزدیک قابل حجت ہے۔ باوجود یہ کہ اس کی سند میں ضعیف ہے کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نسبت کرنے میں رکاوٹ ہے۔ گویا انھوں نے اس کی تعریف جو معناً صحیح ہے لیکن لفظاً صحیح نہیں ہے۔

بعض علماء نے ایسی حدیث کو قیاس پر مقدم کیا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  ایسا کرتے تھے۔یعنی قیاس پر ضعیف حدیث کو وہ ترجیح دیتے تھے۔ تو وہ حدیث ہے کہ جس کی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے تعریف کی ہے۔ گویا امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کی مراد یہ نہیں ہے کہ اس حدیث کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف کرنا درست ہو تو انھوں نے بہت ساری احادیث کے بعد’’حدیث حسن لیس اسنادہ بذاک القائم"انھوں نے کہا ہے اس مسئلہ کو ہم نے پوری وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب ’’الحسن المجموع الطرق‘‘میں ذکر کیا ہے کہ جسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  کا یہ قول "ھذا حدیث غریب"اس سے مراد حدیث کا ضعف ہے کہ جس طرح شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی یہی بات کہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

اصول حدیث علل حدیث اور اسماء رجال کا بیان    صفحہ:278

محدث فتویٰ

تبصرے