سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(192) کافر کو قرآن کا ہدیہ دینا

  • 21957
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1173

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک کافر آدمی اسلام قبول کرنے کا شوق رکھتا ہے تو قرآن پڑھنا چاہتا ہے۔کیا اسے قرآن ہدیہ میں دینا جائز ہے۔(فتاوی الامارات :76)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ جائز ہے کہ جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ یہ قرآن کی بے حرمتی نہیں کرے گا۔ تو اگر ہم ان پہ اپنے رب کی کتاب پیش کرنا حرام سمجھیں گے تو پھر اسلام کی طرف ان کو کیسے بلائیں گے؟" صحیحین" میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے کفار کے ملکوں کی طرف قرآن لے کر سفر کرنے سے منع کیا ہے۔"مسلم"کے الفاظ یوں ہیں۔

"أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ؛ مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ"

 کہ تم سفر نہ کرو قرآن کے ساتھ کفار کی زمین کی طرف اس خوف سے کہ کہیں وہ دشمن قرآن تم سے چھین نہ لے۔

اصول فقہ سے یہ چیز ثابت ہے کہ کتاب و سنت کے مفہوم مخالف کی دلالت ایسے ہی جیسے منطوق کی دلالت ہے۔ ہاں اگر وہ مفہوم مخالف منطوق کے معارض نہ ہوتو ایسی صورت میں منطوق کی دلالت مفہوم پر راجح سمجھی جائے گی۔"مخافۃ ان ینا لہ العدو"اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ دشمن کی طرف سے بے حرمتی کا خوف نہ ہو تو پھر مسلمانوں کو قرآن لے جانا منع نہیں ہے۔ مفہوم سے حجیت پکڑنے کی دلیل:اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :

﴿وَإِذا ضَرَبتُم فِى الأَرضِ فَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَقصُروا مِنَ الصَّلو‌ٰةِ إِن خِفتُم أَن يَفتِنَكُمُ الَّذينَ كَفَروا إِنَّ الكـٰفِرينَ كانوا لَكُم عَدُوًّا مُبينًا ﴿١٠١﴾... سورة النساء

"جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں ہے کہ تم نماز میں قصر کرو اگر تمھیں ڈر ہو کہ تمھیں وہ لوگ فتنے میں نہ ڈال دیں جنہوں نے کفر کیا بے شک کافر تمھارے کھلے دشمن ہیں۔"

﴿إِن خِفتُم أَن يَفتِنَكُمُ الَّذينَ كَفَروا ...﴿١٠١﴾... سورة النساء

یہ شرط ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ"اگر بغیر قصر کرو گے تو تمھیں گناہ ہو گا۔" تو یہ چیز بعض صحابہ کو کھٹکی جب انھوں نے یہ آیت سنی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے انھوں نے پوچھا کیا ہم حالت امن میں قصر کر سکتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ "

یہ ا للہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر صدقہ ہے تو تم اللہ کے اس صدقہ کو قبول کرو۔تو اس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے غلط قرارنہیں دیا اور نہ ہی یہ کہا کہ تم مفہوم مخالف سے دلیل پکڑتے ہو۔’’ مفہوم مخالف حجت نہیں ہے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اس کا سواہل سن کر خاموش رہے پھر اس کا اشکال آپ نے زائل کیا اس فرمان کے ساتھ ’’صدقہ تصدق‘‘ اس روایت کے حوالہ سے ایک اور روایت یہ بھی آتی ہے۔"کہ تابعین میں سے ایک شخص نے کہا کہ اگر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو پالیتا تو ان سے سوال کرتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کس چیز کے بارے میں ؟انھوں نے کہا کہ"وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ"اس آیت  کےبارے میں ۔تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرمانے لگے کہ جس کے بارے میں تم سوال کرنا چاہ رہے ہو اس کے بارے میں میں نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا تھا تو آپ نے مجھے یہ جواب دیا"صدقہ تصدق"الحدیث۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

متفرق مسائل    صفحہ:270

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ