سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(191) اذان کی اجرت لینا

  • 21956
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1334

سوال

(191) اذان کی اجرت لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مسجد میں اذان دینے پر اجرت لینا جائز ہے؟ اور اسی طرح مدارس و مساجد میں حدیث پڑھانے پر اجرت لینا درست ہے۔"فتاوی المدینہ:31)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبادات میں سے کسی عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ چاہے قرآن پڑھانا ہو یا حدیث بیان کرنا ہو یا اذان دینا ہو۔ یہاں ایک اور نکتہ ہے جس پر طلباء کا متنبہ ہو نا ضروری ہے بعض لوگوں کو جو اجرت دی جاتی ہے یہ ان دینی واجبات کی ادائیگی کی وجہ سے صرف نہیں دیا جاتا ۔ یہ ضروری نہیں کہ لینے والا یہ سمجھ کر لے۔ یہ اس عبادت کے 87بجالانے کی وجہ سے اس کو دیا جا رہا ہے۔ وگرنہ وہ گنامیں واقع ہو جائے گا۔

لاشعوری طور پہ" مسند احمد" میں عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  متقی کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی قوم بنو ثقیف کے طرف بھیجا تو فرمایا:

"أَنْتَ إِمَامُهُمْ ، وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ ، وَاتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لَا يَأْخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا . "

"تو ان کا امام ہے۔ان کے کمزور کی اقتدا کر اور ایسا موذن رکھ کہ جو اپنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو۔"

تو اجرت کو عبادت کے بدلہ میں لینا جائز نہیں ہے لیکن اگر ایسے موذن کے لیے کچھ وظیفہ مقرر کر دیا جائے تو وہ لے سکتا ہے لیکن اذان کے بدلہ میں تنخواہ کا نام دے کر نہ لے۔ تو جس طرح ایک شخص گھڑی بناتا ہے۔ اگر گھڑی بنوانے والا اسے اجرت نہ دے تو وہ فیصلہ حاکم کے پاس لے جاتے ہیں کیونکہ اس کا حق ہے لیکن اگر ایک شخص کچھ عرصہ کے لیے مسجد میں اذان دیتا ہو تو وہ اس تنخواہ کی وصولی کا تقاضا نہیں کر سکتا ۔اذان کے بدلے میں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

متفرق مسائل    صفحہ:270

محدث فتویٰ

تبصرے