سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) مشت زنی کا کیا حکم ہے؟

  • 21951
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1002

سوال

(186) مشت زنی کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مشت زنی کا کیا حکم ہے؟(فتاوی الامارات :22)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا شبہ یہ عادت حرام ہے۔ دواسباب کی وجہ سے۔

پہلا سبب:اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ ﴿١ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢ وَالَّذينَ هُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِضونَ ﴿٣ وَالَّذينَ هُم لِلزَّكو‌ٰةِ فـٰعِلونَ ﴿٤ وَالَّذينَ هُم لِفُروجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَراءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے ان آیات سے اس کی حرمت پر استدلال کیا ہے۔ تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اپنی شہوت پوری کرنے کے لیے دور راستے بتائے یا تو آزاد عورتوں سے نکاح کرلیں یا پھر لونڈیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ پھر فرمایا:

﴿فَمَنِ ابتَغىٰ وَراءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

یعنی جس نے اس کے علاوہ اور راستہ تلاش کیا اپنی شہوت کو پورا کرنے کے لیے ان دو راستوں کے علاوہ تو وہ شخص ظالم ہو گا۔

دوسرا سبب : طبی لحاظ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ کام کرنے والے کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اس بری عادت میں صحت کو بڑا نقصان پہنچتا ہے ۔ خصوصاً جو لوگ صبح و شام مسلسل یہ کام کرتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ"

"نہ نقصان دیں اور نہ نقصان لیں۔"

تو مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ایسا کام کریں جو اسے خود کو یا اس کی وجہ سے کسی دوسرے کو تکلیف دے۔ یہاں ایک اور چیز ذکر کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ مشت زنی کو اپنی پختہ عادت بنا لیتے ہیں ان کے بارے میں"اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے۔"

﴿قالَ أَتَستَبدِلونَ الَّذى هُوَ أَدنىٰ بِالَّذى هُوَ خَيرٌ ...﴿٦١﴾... سورة البقرة

"کیا تم گھٹیا چیز بدلے میں لیتے ہو اس کے کہ جو بہتر ہے۔"

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

" يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ "

اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو شخص شادی کی طاقت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ شادی کر لے کیونکہ یہ نظر جھکانے کے لیے سب سے زیادہ اچھی چیز ہے اور شر مگاہ کی حفاظت کے لیے سب سے اچھی چیز ہے جو شخص شادی کی طاقت نہیں رکھتا تو اس پر روزے لازم ہیں کیونکہ یہ اس کے لیے ڈھال بن جائیں گے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

متفرق مسائل    صفحہ:266

محدث فتویٰ

تبصرے