السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عیسائی ممالک میں بعض ایسی مصنوعات ہیں کہ ان کے بقول اس میں گائے کی چربی مکس ہوتی ہے۔ تو کیا یہ چربی بھی حرام ہوتی ہے کیونکہ جن چیزوں میں ملائی جاتی ہےاگر وہ شرعی طور پر پاک نہ ہوں۔؟(فتاوی المدینہ :86)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کیونکہ صحابہ کے پاس جو مصنوعات فارس وغیرہ سے اس طرح کی آتی تھیں تو انھیں کھاتے تھے اور چربی اگر ایسے جانور کی ہو جسے غیر شرعی طور پر ذبح کیا گیا ہو تو وہ حرام ہے۔ کیونکہ جو جانور شرعی طریقہ سے ذبح کیا جائے اس کی چربی حلال ہوتی ہے اور جو جانور غیر شرعی طور پرذبح کیا جائے اس کی چربی حلال نہیں ہوتی۔
لیکن صحابہ کے پاس فارس سے جو اس طرح کی مصنوعات آئیں تھیں اور وہ لوگ کھاتے تھے۔ یہ ہمارےلیے ایک طرح سے حجت ہے۔ بہت کم لوگوں کا ذہن اس طرف جاتا ہے تو اس طرح کی پلید چربی پلوں سے پھینک دی جاتی ہے کہ جیسے بعد میں پاک پانی تصور کیا جاتا ہے کہ جو آسمان سے نازل شدہ ہے جبکہ اس میں اس طرح کی پلیدگی گر چکی ہوتی ہے۔ تو کیا اس طرح کا پانی پینا اور اس سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے۔؟جی ہاں جائز ہے۔ کیونکہ اس طرح کی جو نجاست اس میں گری ہے وہ پانی پر غالب نہیں ہے۔ اس پانی میں طاہر اور مطہر دونوں وصف موجود ہیں۔ اسی طرح ایسا تیار کردہ دودھ بھی پاک ہے اور اس کا پینا بھی جائز ہے۔ اگرچہ یقیناً اس حلیب میں اس طرح کی پلید چربی وغیرہ ڈال دی گئی ہو۔ تو میں یہاں کوئی پختہ رائے نہیں دے سکتا ۔ تو اگرکوئی کیمیائی طور پر ماہر شخص ہمارے سامنے پورا فارمولا وضاحت کے ساتھ رکھے۔ ان مختلف مادوں کے ملنے سے اس کے اصل میں کتنی تبدیلی آتی ہے ۔ ایک حقیقت سے دوسری حقیقت کی طرف کتنی اس میں تبدیلی آتی ہے۔تو پھر مشکل ہمارے لیے آسان ہو جائے گی۔ اگر تحقیق کرنے والے کے لیے یہ بات ظاہر ہو جائے ان مختلف چیزوں میں چربی ملنے کے باوجود محفوظ ہے لیکن وہ اگر حلیب مکس ہو جانے کے بعد بہترین جائے تو اس کا جواب وہی ہے کہ جو پہلےگزر چکا ہے۔ تو تبدیل ہونا جانا یہ اصل عامل ہے۔ اس کے حکم کے تبدیل ہونے کے لیے تو تبدیلی جن چیزوں سے آتی ہے اگر وہ تمام پاک چیزیں ہوں تو پھر تو کوئی حرج نہیں ہے۔ شراب حرام ہے’’ نشہ کی وجہ سے ۔ اگر اس میں کوئی چیز مل کر اس میں مل جائے اور نشہ ختم ہو جائے تو وہ شراب بھی حلال ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ سر کہ بن جاتی ہے۔ نشہ آور بھی نہیں رہتی اور نجس بھی نہیں رہتی۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب