السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وتر اور اس کے علاوہ میں قنوت کا کیا حکم ہے؟(فتاوی الامارات:93)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قنوت وتر میں سنت ہے اور یہ سنت کسی ایک مہینے یا مخصوص مہینوں کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ اسی بناء پر کہ اگر نماز ی رمضان میں تراویح میں قنوت کرنا چاہے تو اس کے لیے جائز ہے۔ چاہے رمضان کے شروع میں یا آخر میں قنوت کرنا چاہے۔ امام کے لیے مسنون ہے کہ وہ قنوت کی دعا بلند آواز سے پڑھے اور اپنے ہاتھ اٹھائے مقتدی بھی اسی طرح کریں گے۔
"مَا زَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا "
کہ ہمیشہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے میں قنوت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ دنیا سے چلے گئے۔ لیکن یہ حدیث دواسباب کی بناء پر ضعیف ہے۔ پہلا سبب اس کی سند میں ایک راوی ہے جو کہ ابو جعفر رازی کی کنیت سے معروف ہے۔ اس کا نام عیسیٰ بن ماہان ہے لیکن علماء حدیث کے نزدیک یہ ضعیف ہے۔
دوسری بات: صحیح سند کے ساتھ انس سے ایک روایت آتی ہے کہ جو ہمیشگی کی نفی کرتی ہے۔ جیسے "صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ " میں حدیث ہے:
"أن النبي صلى الله عليه وسلم : كان لا يقنت إلا إذا دعا لقوم ، أو دعا على قوم"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قنوت نہیں کرتے مگر جب کسی قوم کے لیے یا کسی قوم کے خلاف دعا کرتے۔
اس لیے جمہور کا موقف بھی یہ ہے کہ ہمیشگی کے ساتھ فجر میں قنوت کرنا مشروع نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب