السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز ختم ہونے کے بعد بلند آواز کے ساتھ ذکر کرنے کا کیا حکم ہے؟(فتاوی المدینہ:13)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
"صحیحین "میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے انھوں نے فرمایا:کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ختم ہونے کو بلند آواز کے ساتھ ذکر کرنے کو پہچانتے تھے۔ لیکن بعض علماء نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول پر بہت باریک ملاحظہ کیا ہے۔ تو ان کے قول "کنا"میں بہت مناسب اشارہ ہےکہ یہ اس پر ہمیشہ عمل نہیں کرتے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ "الام"میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند آواز کے ساتھ ذکر کرنا تعلیم کے لیے تھا ۔ تو اس وقت بلند آواز پر عمل تعلیم دلانے کے لیے تھا۔ تو ان کی طبیعت میں سے یہ بات تھی کہ آپ اس کام کو ہمیشگی سے نہیں کیا کرتے تھے۔ مجھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی بات بھی یاد آرہی ہے کہ انھوں نے بھی فرمایا امام کے لیے جائز ہے کہ بلند آواز کے ساتھ ذکر کرے۔
"صحیحین"میں ابو قتادہ انصاری کی حدیث ہے:
"كان النبي صلى الله عليه وسلم يسمعهم الآية أحيانا ، في الظهر والعصر "
کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کبھی کبھار آیت زور سے سنایا کرتے تھے۔ ظہر و عصر کی نماز میں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس سنت سے اس معنی کو اقتباس کیا ہے کہ جس کی طرف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا ہے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔وہ دعاء واستفتاح جہراً پڑھا کرتے تھے۔ لوگوں کی تعلیم کے لیے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اہل علم نے اس حدیث کے معنی کو تعلیم دلانے پر محمول کیا ہے۔ کہ شریعت میں ثابت ہے کہ افضل ذکر وہ ہے کہ جو آہستہ ہو۔ یہ الفاظ جس حدیث میں ہیں اس کی سند میں ضعف ہے لیکن اس کا معنی صحیح ہے اور بہت ساری ایسی احادیث آئی ہیں کہ جن میں بلند آواز کے ساتھ ذکر کرنے سے روکا گیا ہے۔ جس طرح ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے"بخاری و مسلم"میں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو سبحان اللہ کہتے اور جب ہم بلند جگہ پر چڑھتے تو ہم زور سے اللہ اکبر کہتے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ ، فَإِنَّكُمْ لا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلا غَائِبًا , إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ , مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ "
اور یہ حکم جب آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو میدان میں دیا کہ جب کسی دوسرے کی پریشان کرنے والی بات نہیں تھی۔تو کیا خیال ہے تمھارا کہ اگر کوئی مسجد میں آواز بلند کرے کہ جہاں وہ قرآن پڑھنے والے تشویش کا خدشہ ہے اسی طرح سے جس کی نماز نکل گئی تو وہ بھی پریشان ہو جائے گا۔ نص صریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علت کی وجہ سے منع کیا ہے۔
"يا أيها الناس كلكم يناجي ربه فلا يجهر بعضكم على بعض في القراءة".
امام بغوی نے زائد یہ الفاظ ذکر کر دیئے ہیں۔(فتؤ ذوالمؤمنين)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب