السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا جائز ہے؟بعض لوگ اس کے جواز کے لیے""ان النبي صلي الله عليه وسلم صلاة الفجر فلما سلم انحرف ورفع يديه ودعا"اس حديث سے استدلال کرتے ہیں؟(فتاویٰ الامارات:93)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے علم کے مطابق یہ حدیث ذخیرہ حدیث کی کتب میں سے کسی کتاب میں مجھے نہیں ملی۔معروف یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد اذکار میں یا دعاؤں میں مصروف ہوجاتے۔اس کی قید مذکور نہیں ہے اور کسی حدیث میں بھی اس طرح کا دعا کا ذکر نہیں آتا کہ جس طرح کے بعض مساجد کے آئمہ کرتے ہیں۔بہت ہی مختصر دعاؤں کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آتا ہے:
"اللَّهُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ "
’’اے اللہ! مجھے اپنے عذاب سے بچا کہ جس دن تو اپنے بندے اٹھائے گا۔‘‘
فرض نمازوں کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔اسی طرح ایک اور دعا:
"اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلامُ ، ومِنكَ السَّلامُ ، تباركْتَ يَاذا الجلالِ والإكرام"
یہ بھی پڑھا کرتے تھے لیکن ایسی کسی دعا میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں کوئی ذکر نہیں آتا جبکہ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی دو قسمیں ہیں۔سنت فعلیہ اور سنت ترکیہ۔جوجو عبادات اور اطاعتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں تو وہ ہمارے لیے سنت ہے۔ہم بھی اسی طرح سے کریں اور جو کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑیں ان کو چھوڑنا سنت ہے۔اپنے نبی کی اتباع کرتے ہوئے۔
تو ہم جیسے مثلاً پانچوں نمازوں کے لیے اذان دیتے ہیں جبکہ بارش کی نماز اور سورج گرہن کی نماز کے وقت اذان نہیں دیتے جبکہ انسان کی عقل تو یہ کہتی ہے کہ جس طرح پانچوں نمازوں کے لیے اذان دینے کی ضرورت ہے کہ لوگ جمع ہوں تو اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ان نمازوں کے لیے اذان دی جائے۔لیکن اس سخت ضرورت کے باوجود اذان صرف پانچ نمازوں کے لیے مشروع ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی نمازوں میں اذان کو چھوڑا ہے تو لہذا ان نمازوں کے لیے اذان چھوڑنا ہی سنت ہے۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب"اقتضاء الصراط المستقیم"میں فرمایا کہ مصلحت مرسلہ اور بدعت میں فرق ہے تو فرماتے ہیں کہ ہر وہ بدعت کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہوئی ہے'وہ ان دو شکلوں میں گھومتی نظر آتی ہے۔
اولاً:یا تو بدعت کرنے والاایسا شخص ہوکہ اس بدعت کا خدشہ عہد نبوت میں بھی تھا لیکن اس وقت نہیں کیا مثلاً جیسے پانچوں نمازوں کے علاوہ کے لیے اذان دینا اب اس بدعت کو اختیار کرنا یہ دین میں نئی بات کرنا ہے۔جب اس تقاضے کایہ سبب ہو کہ مسلمانوں میں دین کے احکامات اپنانے کی کمی ہوتو اس بدعتی کی بات کو نہیں لینا چاہیے۔اس کی مثال جس طرح مختلف ٹیکس جولاگو ہیں تو اس ٹیکس کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شرعی احکام(یعنی زکوٰۃ) کو نظر انداز کردیا گیا کہ جو قومی خزانہ شمار ہوتا۔تو لہذا ایسے ٹیکس لینا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اس ٹیکس لگنے کی وجہ سے مسلمانوں کی اپنی سستی ہے۔لیکن اگر مسلمانوں کی اس کوتاہی یاکمی کاازالہ ممکن نہ ہوتو پھر ٹیکس لینالازم آئے گا۔یہاں آپ کے سامنے مصلحت مرسلہ اور بدعت کے درمیان فرق بتاتے چلیں۔مصلحت مرسلہ جو ہے یہ عبادت میں اضافہ کادروازہ نہیں ہے بلکہ ایک مسلمانوں کی مصلحت کا خیال رکھنے کے مترادف ہے کہ اس کا دین میں عبادت کے اضافہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔مثلاً ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مالی طور پر اتنا مستحکم کیا ہے کہ وہ جہاز یا گاڑی کے ذریعہ سے فریضہ حج ادا کرسکتا ہے لیکن وہ کہے کہ میں پیدل جاؤں گا اور یہ بھی کہے کہ پیدل حج کرنا افضل ہے۔تو یہ بدعت ہے۔لیکن اگر کوئی ان سواریوں میں سے کسی سوار پر بیٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اور لیکن پیدل حج کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ حج کرے۔اللہ تعالیٰ کے فرمان کے عموم سے یہ ثابت ہے:
﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا ... ﴿٩٧﴾... سورة آل عمران
’’اللہ کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ کرنا لازم ہے جو بھی اس کے راستہ کی طاقت رکھتا ہو‘‘
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ طاقتور تھے۔اسی طرح سے آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی طاقتور تھے لیکن پھر بھی انہوں نے پیدل حج نہیں کیا۔بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سواریوں پر حج کیا۔ کون شخص دعویٰ کرسکتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبادت میں زیادہ عبادت کا شوق نہیں رکھتے تھے؟حالانکہ آپ پیدل حج نہیں کیا طاقت ہونے کے باوجود۔اب اگرچہ ہوائی جہاز ایک نئی چیز ہے۔لیکن مصالح میں داخل ہے کہ اس کے ذریعہ انسان سہولت کے ساتھ بیت اللہ کا حج کرسکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب