السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا غیر مسلموں کی خاص تہواروں میں کہ جو بعض ممالک میں منعقد ہوتی ہیں، ان میں شرکت کرنا جائز ہے؟اور ان تہواروں کی مناسبت سے اگر وہ تحفہ بھیجیں تو کیا اسے قبول کرنا جائز ہے؟(فتاویٰ الامارات:107)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مشکل ہمارے لیے اس لیے کھڑی ہوئی کہ ہم نے کفار کے نظم کی تقلید کی ان سے جان چھڑانا آسان نہیں۔الا کہ اپنی ساری معاشرت ہم تبدیل کریں۔
اسلام میں تین عیدوں کے علاوہ کوئی عید نہیں پائی جاتی۔دو سالانہ عیدیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ اور ایک ہفتہ وار عید یعنی جمعہ کا دن۔
ہمیں کسی زمانے میں سے ایک عید سے شکوہ ہے کہ جو حقیقت میں عید نہیں ہے،لیکن مسلما نوں کے اوپر تھوپ دی گئی ہے۔وہ یہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ بدعت سنت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔پھر یہ کہ عید مسلمانوں کے پرانے نصاریٰ کی رسموں کی تقلید کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے،کسی بدعتی نے کہا کہ نصاریٰ ا پنے نبی کی پیدائش پر مجلسیں کرتے ہیں تو کیا ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر محفلیں نہ کریں؟عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دین سے غفلت اختیار کررکھی ہے ۔تو گویا اس میں عیسائی مسلمانوں کے لیے قدوہ بن گئے ہیں گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی تقلید کرنے سے ڈرایا ہی نہیں۔"صحیح مسلم" میں ابوقتادہ رحمۃ اللہ علیہ انصاری کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ پیر کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ"
یہ ایک دن ہے کہ جس میں میری پیدائش ہوئی اور مجھ پر اس دن وحی نازل ہوئی۔تو گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ پیر کے دن تم شکرانے کا روزہ رکھاکرو۔میری ولادت اور میری بعثت کےشکرانے کے طور پر توہم پر لازم ہے کہ ہم اس نعمت کو یاد کرتے ہوئے اس دن کا روزہ رکھیں کہ اس سے بڑھ کر ہمارے لیے کیا چیز نعمت کا باعث بن سکتی ہے۔ہر پیر کے دن کا روزہ رکھیں۔بہت کم لوگ پیر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے شکرانے کے طور پرروزہ رکھتے ہیں۔اس دن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک سب سے اچھا نعم البدل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عنایت فرمایا۔
آپ اکثر مسلمانوں کو پائیں گے کہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسیں تو منعقد کرتے ہیں لیکن پیر کے دن کا روزہ نہیں رکھتے اور جب ان سے کہا جائے کہ تم مجلسیں کیوں منعقد کرتے ہو؟ وہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں ہم مجلسیں منعقد کرتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وہی کچھ مشروع قراردیا کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور لوگوں کے لیے بہتر تھا کا حکم دیا اور یہ جو مجلس ہے یہ بدعت ہے ۔اس کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ کفار کے ساتھ مشابہت بھی ہے اور تم اس طرح کی غیر شرعی محفلیں منعقد کرتے ہو ہر سال میں ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے مسنون قراردیا کہ ہر ہفتہ تم مجلس منعقد کروتو اس لحاظ سے دونوں مجلسوں میں سے کونسی مجلس بڑی ہے؟
تو لہذا ہمارے لیے مذکورہ تین عیدوں(عید الفطر،عید الاضحیٰ اور جمعہ) کے عیدیں اور مجلسیں منعقد کرناجائز نہیں ہے۔باقی رہا تحفہ قبول کرناتوتحفہ کی بنیاد فاسد چیز یہ ہے جس چیز کی بنیاد ہی فاسد چیز پر ہوتو وہ خود توفاسد ہی ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب