السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ’’جسے مسلمان اچھےسمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان برا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی بُرا ہے۔‘‘ کیا اس حدیث سے یہ ثابت بدعت حسنہ کا ثبوت نہیں ملتا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث مرفوع نہیں'بلکہ موقوف ثابت ہے۔دیکھیں(الضعیفہ۔533) یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ بعض لوگ اس حدیث سے بدعت حسنہ کا استدلال کرتے ہیں اور اس کے حسنہ ہونے کی دلیل مسلمانوں کا اس کا اہتمام کرنا ہے اور جب یہ مسئلہ عام ہوا تو ان لوگوں کا عجلت میں اس حدیث سے استدلال کرنے سے یہ معاملہ مشہور ہو گیا،حالانکہ ان پر یہ مخفی رہا۔
(الف) یہ حدیث موقوف ہے۔جسے قطعی نصوص""کے مقابل دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔
(ب) اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اسے دلیل بنایا جاسکتاہے۔درج ذیل صورتوں میں یہ دیگر نصوص کے معارض نہیں رہے گی۔
الاول:کسی معاملہ'مسئلہ پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجماع واتفاق اس سے مراد ہے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلافت کے انتخاب پر استدلال سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اس صورت میں"المسلمون" پر"اللام" استغراقی نہیں بلکہ الصید کا ہوگا۔
الثانی:اگر ہم(تھوڑی دیر کے لیے) یہ تسلیم کرلیں کہ "الف لام" استغراق کاہے۔تو بھی اس سے یہ مسلمانوں کا ہر فرد وہ ذرا ساعلم نہ رکھنے والا جاہل ہو'قطعاً مراد نہیں۔
لامحالہ اس صورت میں"المسلمون" سے مراد"اہل العلم" ہی ہوں گے اور میرے خیال میں اسے مانے بغیر کوئی چارہ کار اور جائے پناہ نہیں ہے۔
تو اس صورت میں اہل علم کون ہوں گے؟کیا اس میں وہ مقلد بھی شامل ہوں گے جنھوں نے ا پنی ذات پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو سمجھنے کی راہ میں کی ہوئی ہے اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا؟
ہرگز اس سے یہ لوگ مراد نہیں۔اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
حافظ بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ "جامع بیان العلم"(2/37۔36)میں فرماتے ہیں:
’’علم کی تعریف علماء کے نزدیک یہ ہے کہ جس چیز پر آپ کو یقین آجائے اور آپ اس میں فکر وتامل کریں اور جس کسی کو کسی بھی چیز کا یقین ہوگیا اوراس میں غور وفکر کرلیا تو اس نے اسے(اس کی حقیقت کو) جان لیا(اور اس کے برعکس) جسے کسی چیز کا یقین نہ ہوا اور اسے تقلید کرتے ہوئے مان لیا(بغیر یقین'غوروفکر کے) تو اسے اس چیز کا علم حاصل نہ ہوا اور تقلید اکثر علماء کے نزدیک اتباع نہیں ہے۔
اس لیے کہ اتباع یہ ہے کہ قائل کا آپ کے لیے اپنے قول کی صحت کو واضح کرنے کی تلاش وجستجو کرنا(اتباع ہے) اور تقلید یہ ہے کہ:آپ کوئی بات کرو'حالانکہ آپ کو اس کا علم ہو'نہ اس کے قول کی وجہ اور معنی(پتہ ہو)۔
"المقلد لا يسمى فقيها"
’’بے شک مقلد کو فقیہہ نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
علامہ سندھی نے "ابن ماجہ 1/7" کے حاشیہ کے نقل کرکے اس کا اقرار کیا ہے اور اس بات کو کئی ایک مقلدین نے بیان کیا ہے بلکہ بعض نے تو اس کی حقیقت مزیدیہ کہہ کر واضح کردی کہ"مقلد جاہل ہوتا ہے۔
صاحب الہدایہ نے کہا:
"کسی کو اس وقت تک قاضی کا منصب نہ دیا جائے،جب تک وہ صاحب اجتہاد نہ ہو"ابن الہمام نے"فتح القدیر"(5/456) میں لکھا ہے:
"صحیح بات یہ ہے کہ اہلیت اجتہاد اولین شرط ہے ۔بہرحال جاہل کو یہ(منصب قضاء) سونپنا ہمارے ہاں صحیح ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ( اس مسئلہ میں) ہمارے خلاف ہیں۔
قلت:غور کریں کہ کیسے ابن الہمام نے مقلد قاضی کو جاہل قراردیا۔جب باعتراف خود علم میں ان کی حالت اور مقام یہ ہے۔۔۔الغرض کہ اس سے مقلدین مراد نہیں۔
یہ کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ موقوف ہے اور بدعتیوں کے لیے اس کی کوئی دلیل نہیں۔اور یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جبکہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے بدعت اور اس کی پیروی کے سخت مخالف تھے۔اس بارہ میں ان افعال وواقعات"سنن الدارمی" اور "حلیۃ الاولیاء" وغیرھا کتب میں مشہور ومعروف ہیں۔ یہاں صرف ایک قول پر اکتفا کیاجاتا ہے۔ارشاد فرمایا:
"اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم عليكم بالأمر العتيق"
’’اتباع کرو اور نئے نئے کام اختیار نہ کرو'کہ تم(قرآن وسنت کے ساتھ) کفایت کیے گئے ہواور پرانے معاملے(یعنی کتاب وسنت) کو لازم پکڑو۔‘‘
اس کی تخریج میرے رسالے(الرد علی التعقیب الحثیث) میں ملاحظہ ہو۔
اے مسلمانو! سنت کو لازم پکڑو،تم ہدایت وفلاح پاجاؤگے۔(نظم الفرائد 1/210۔207)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب