السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا ہے۔مجھ پر قسم ہے تیری طلاق کی اگر تو فلاں جگہ پر گئی۔تو اگر بیوی چلی جائے تواس کا حکم کیا ہوگا؟جاننے کے باوجود نیت لفظ کے ساتھ وارد ہوتی ہے؟(فتاویٰ الامارات:22)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کا قول(علی الطلاق) یہ طلاق کی قسم ہے۔
اور طلاق کی قسم طلاق نہیں ہے ۔الا کہ اگر وہ اس کا مقصد کرلے تو اس وقت طلاق واقع ہوجائے گی۔
علماء نے طلاق کی دو قسمیں بنائیں ہیں:(1) طلاق سنی(2) طلاق بدعی۔
طلاق سنی وہ ہے کہ جو سنت کے مطابق ہو اور طلاق بدعی کےبارے میں سب کا اتفاق ہے کہ اسے الفاظ میں ادا نہیں کرنا چاہیے۔اگرچہ پھر واقع ہونے کے بارے میں ان کے مابین اختلاف ہے۔سنی طلاق کی شرائط میں سے گواہوں کا ہونا بھی شرط ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب