السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ مونچھیں مونڈ دیتے ہیں کیا یہ اللہ کے مخلوق میں تبدیلی ہے؟(فتاویٰ المدینہ:18)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی کے مترادف نہیں ہے ۔اگرچہ میری رائے کے مطابق یہ منکر کام ہے جو لوگ مونچھیں منڈواتے ہیں وہ دراصل" أَحْفُوا الشَّوَارِبَ " کی تاویل کرتے ہیں۔
دوسری حدیث"أَنْهِكُوا الشَّوَاربَ"تو وہ نص نبوی کی مطابقت کرتے ہیں۔اپنی سمجھ کے مطابق احفاء انہاک اور جز ان سب کا ایک ہی معنی ہے۔ان سے مراد یہ ہے کہ مونچھوں کا وہ حصہ جو ہونٹوں سے آگے بڑھے نہ کہ جڑ سے ساری مونچھیں کاٹنا۔"مفو" مافہ سے مشتق ہے۔اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ مونچھوں کی ابتداء۔
اس معنی کی تائید میں ایک اور حدیث بھی ہے کہ جسے زید بن ارقم نے روایت کیا ہے۔مسند احمد اور سنن میں موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ لَمْ يَأْخُذْ شَارِبَهُ"
نہیں فرمایا بلکہ"من" کے ساتھ بیان فرمایا اور من تبعیض کے معنی کے لیے آتی ہے۔اس حدیث کے معنی کی وضاحت کے لیے ایک اور حدیث پیش خدمت ہے:"مسند احمد" وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس کی مونچھیں بڑھی ہوئیں تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قینچی منگوائی اور مسواک منگواکر اس کے ہونٹ پر رکھی جو بال اس مسواک سے نیچے تھے وہ کٹوادیے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب