السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الکحل والی خوشبو کا کیا حکم ہے؟(فتاویٰ المدینہ:108)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الکحل والی خوشبو کہ جو تیل والی نہ ہو'نجس نہیں ہے لیکن کبھی کبھار حرام ہوتی ہے۔حرام اس وقت ہوتی ہیں کہ جب الکحل اتنے زیادہ مقدار میں ہوکہ الکحل کی وجہ سے وہ خوشبو پانی کی طرح بہنے والی بن جائے تو ایسی صورت میں نشہ آور بھی بن جاتی ہے۔تواس وقت ان نشہ آور چیزوں میں شامل ہوجاتی ہے کہ جنھیں نشہ کی وجہ سے خریدنا اور بیچنا منع ہوتا ہے۔
اس وقت ان کا لین دین جائز نہیں ہے اورخوشبو لگانا بھی جائز نہیں ہے کہ کیونکہ اس وقت کسی بھی صورت میں ان کا استعمال اس اللہ کے فرمان کے عموم میں داخل ہوتا ہے:
﴿ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدوٰنِ﴾
کہ گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"عن ابْنِ عُمَرَ قال قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( لَعَنَ اللَّهُ الْخَمْرَ وَشَارِبَهَا وَسَاقِيَهَا وَبَائِعَهَا وَمُبْتَاعَهَا وَعَاصِرَهَا وَمُعْتَصِرَهَا وَحَامِلَهَا وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ"
اللہ تعالیٰ کی دس اشخاص پہ شراب کی وجہ سے لعنت ہے۔پینے والے'پلانے والے'نچوڑنے والے'اٹھانے والے'جس کی طرف اٹھایا جارہاہے اور بیچنے والے اور خریدنے والے سب پر۔اس لیے ہم الکحل والی خوشبوؤں کی تجارت سے آپ کو دور ہنے کی نصیحت کرتے ہیں۔خصوصاً کہ جب ان پر لکھا ہوکہ اس میں ساٹھ فیصد اور اس میں ستر فیصد الکحل ہے تو اس چیز کا معنی یہ ہے کہ اس کا نشہ آور ہونا ممکن ہے۔شریعت کے ابواب میں سے ایک باب"سداالذریعۃ"بھی کہ جس کا معنیٰ ہے جو چیز خود حرام ہے اس کے اسباب بھی حرام ہیں۔شارع حکیم نے اس کے دروازے بھی بند کردیے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
" مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ"
کہ جس کا زیادہ نشہ دینا ہوتواس کا تھوڑا بھی حرام ہے۔
تو خلاصہ یہ ہےکہ الکحل والی خوشبو نہیں بیچنا چاہیے۔خصوصاً کہ جب ان میں الکحل کی ملاوٹ زیادہ ہو۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب