سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) حج افراد کی افضلیت

  • 21892
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1241

سوال

(127) حج افراد کی افضلیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیسے ہم ان پررد کر سکتے ہیں کہ جو حج افراد کی افضیلت کے قائل ہیں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حج سے استدلال کرتے ہیں۔ چوبیس سال کی مدت سے؟(فتاوی المدینہ:84)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال میں ایک چیز ہے کہ جو واقع کے مطابق نہیں ہے وہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا چوبیس سال مسلسل حج افراد کرنا۔ جو اس کا دعوی کرے ہم اس سے پوچھتے ہیں۔ ثابت کرو کہ انھوں نے حج افراد چوبیس سال کیا ہو۔ تو یہاں ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ چوبیس سال انھوں نے حج افراد کیا ہے۔ صرف ایک مجمل حدیث ہے کہ ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حج افراد کیا ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ یہ دونوں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں تو ہم کہیں جی ہاں لیکن ان کا اجماع نہیں ہے کہ حج افراد ہی افضل ہے۔ بلکہ اس سے اچھا یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ حج افراد جائز ہے۔پھر دوسری بات یہ ہے ۔کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ان میں سے کسی کی طرف سے راجح افراد کے افضل ہونے کے بارے میں کوئی مناقشہ بھی مروی نہیں ہے۔ ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ڈھائی سال خلافت رہی تو وہ حج افراد ہی کرتے رہے۔ کیوں حج افراد کیا؟ اس کا کوئی بھی جواب نہیں دے سکتا۔ کیونکہ حدیث بہت مختصر ہے۔ عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا مسئلہ اور ہے اس نے صرف حج افراد نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنے اجتہاد سے حج تمتع کرنے سے منع کیا ہوا تھا ۔ تو ہمارے اور تمھارے درمیان کیا فرق ہے؟ تو تم ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مخالفت کی وجہ سے۔

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حج تمتع سے منع کرتے ہیں اور تم تمتع کی اجازت دیتے ہو اور بسااوقات بعض تم میں سے کہتے ہیں کہ حج تمتع افضل ہے۔

عمران بن حصین کی"صحیح مسلم" میں حدیث ہے۔

قال: تمتعنا مع رسول الله يَةِ متعة الحج، ثم لم ينزل القرآن بنسخه، ثم قال رجل برأيه ما شاء".

ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حج تمتع کیا پھر اس یک نسخ کے بارے میں تو قرآن نہیں اترا بلکہ لوگوں نے اپنی رائے کے ساتھ جو چاہا کہتے رہے۔ یہ بہت باریک بینی والا رد ہے۔"

"ثم قال رجل....."

اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف اشارہ ہے انھوں نے اجتہاد کیا لوگوں کو حج تمتع سے منع کیا۔ وہ جاہل بھی نہیں تھے لیکن ان کے لیے کوئی ایسی مصلحت ظاہر ہوئی ہے کہ جس کی وجہ سے لوگوں کو حج افراد کا حکم کرتے تھے اور تمتع سے منع کرتے تھے اور عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طریقہ پر چلتے رہے۔ تمتع سے منع کرتے تھے ایک دفعہ اپنی خلافت کے دوران حج کے لیے نکلے اور حج کااعلان کیا تو علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ان کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے تجھے کیا ہوا تو ایسی چیز سے منع کرتا ہے کہ جو کام ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ کرتے تھے؟

"لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ"

یہ تلبیہ انھوں نے خلیفہ کے سامنے پکارا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ایک چیز سمجھ آئی کہ جسے عثمان نہیں سمجھ سکے تو مناسب نہیں ہے کہ کوئی ایسا کہے۔ کیا وہ ہم سے زیادہ جاننے والے نہیں تھے؟ یازیادہ سمجھنے والے نہیں ےتھے؟ تو ہم ایسا نہیں کہتے۔ لیکن جب یہ مسئلہ صحابہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مختلف فیہ ہےتو کسی کے لیے تمتع سے منع کرتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اس کا حکم دیتے تھے ۔تو کیا یہاں کوئی مسلمان  آدمی ہے کہ جو عمر سے زیادہ محب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہو کہ کیا ممکن ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ہر مسئلہ میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بناسکے؟ یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ عمر ایک بات کرے لیکن درست بات اس کے برخلاف ہو۔ مثلاًحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اپنے دور خلافت میں پانی نہ ہونے کی صورت میں مسافر کو نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے ۔تمیم کے ساتھ بھلے کئی ماہ تک پانی نہ ملے۔ بغیر نماز کے جبکہ عمار بن یاسر اس کے برخلاف فتوی دیتے تھے۔ جب ان کا فتوی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو پہنچا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ان کی طرف پیغام بھیجا تو عمار فرمانے لگے اے امیر المؤمنین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تمھیں یاد ہے جب ہم سفر میں تھے ہم پر غسل واجب ہو گیا تھا۔ پانی نہ ہونے کی شکل میں ہم مٹی میں لت پت ہوئے کہ جس طرح جانور مٹی میں لت پت ہوتا ہے۔ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور یہ بات ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إنما كان يكفيك أن تضرب بكفيك في التراب، ثم تنفخ فيهما، ثم تمسح بهما وجهك وكفيك "

تجھے یہی کافی ہے کہ تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پہ مارے پھر ان دونوں کے ساتھ اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا: مجھے یاد نہیں ہے عمار نے کہا تو پھر میں اس فتوی سے رک جاؤں گا؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا: نہیں بلکہ ہم آپ کو اس چیز کا والی بناتے ہیں کہ جس کے آپ والی بنے ہیں ؟  

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

حج اور عمرہ کا بیان صفحہ:220

محدث فتویٰ

تبصرے