السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا افریقہ والے روزہ رکھنے کے لحاظ سے ایشیاء والوں کی رؤیت کا اعتبار کریں گے؟(فتاوی المدینہ:127)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں اصل دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے۔
"صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ "
کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔یہ خطاب پوری امت کے لیے ہے۔
جو چاہے مشرق میں رہنے والے ہوں یا مغرب میں رہنے والے ہوں لیکن اس دور میں تطبیق دینا اتنا آسان نہیں ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہر ایک کے لیے اپنے علاقہ کہاکہ جس طرح بعض علماء کا یہ قول ہے کہ ہر علاقہ والوں کا اپنا اعتبار ہو گا۔ علماء نے یہ بات اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کی ہے کہ تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہر جگہ پر نافذ ہو جائے۔کیونکہ آج کل تو پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں چاند ثابت کرنا ممکن ہے۔ تو جہاں چاند دیکھا جائے تو جہاں چاند دیکھنے کی خبر پہنچ جائے ان کو روزہ رکھنا چاہیے یہ ان کے لیے بہترہے۔ بجائے اس کے کہ وہ آپس میں الگ الگ ہو جائیں اور کسی کی عید پہلے ہو رہی ہے اور کسی کی بعد میں لیکن حقیقت میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے تمام اسلامی حکومتیں مل کر تمام ممالک میں بیک وقت عید کروائیں تاکہ لوگ اس تفرقہ بازی سے نجات پاجائیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب