السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز قصر اور جمع کب ہوتی ہیں؟ اور کیسے ہوتی ہیں؟(فتاوی الامارات:78)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کب جب بھی سفر ہو گا ۔ جب مسافر ہو گا تو ایسی صورت میں اس پر قصر واجب ہو گی اور نماز یں جمع کرنا اس کے لیے جائز ہو گا۔جمع تو بسااوقات مسافر کےعلاوہ دوسرے بھی کرتے ہیں جیسے"استحاضہ"والی عورت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دو نمازوں کے درمیان جمع کرنے کی رخصت دی ہے کیونکہ وہ عورت استحاضہ کی وجہ سے معذور ہے۔
جیسا کہ اس’’استحاضہ‘‘ کے علاوہ دوسرے اسباب کی بناء پر مردوں اور عورتوں کے لیے اقامت کی حالت میں نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ اس میں حرج پایا جائے کہ جب ہر شخص یہ چاہتا ہو کہ ہر نماز کو اپنے وقت پر ادا کرے۔
اس معنی پر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کو مجہول کیا جائے گا کہ جو"صحیح مسلم"میں ہے۔
"جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ "، فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: كَيْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ، وَفِي حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ، قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَه "
صرف مسافر ہی پر جمع کرنا واجب نہیں ہے بلکہ حرج کی بات ہے کہ پائی جا رہی ہے کہ نہیں۔ اگر مسافر اپنا سفر جاری رکھے تو ایسی صورت میں کہ جب سفر جاری ہو تو دونوں نمازوں کے درمیان جمع کرے گا ۔اگر کہیں پڑا ؤڈال چکا ہے ’’ٹھہر چکا ہے‘‘ایسی صورت میں دو نمازوں کے درمیان جمع نہیں کرے گا ۔کہ جس طرح ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا "زاد المعاد"میں یہی مؤقف ہے کہ جس کی تفصیل یہ ہے لیکن اس پر دلیل نہیں ہے۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کہ جس سے ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ دلیل پکڑتے ہیں۔
"كَانَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ"
کہ جب ان کو سفر میں مشکل ہو تی تو دونوں نمازیں جمع کر لیتے۔ تو یہ حدیث بھی اس بات کی نفی نہیں کرتی کہ جب کہیں پڑاؤ ڈالنا ہو تو جمع کرے۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو انہی حدیث کے مطابق ایک ایسی چیز کے بارے میں خبر دے رہے ہیں کہ جو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک حالت پر اطلاع پائی۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا منطوق تو صریح ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب سفر میں مشقت نہ ہوتو پھر جمع نہیں کرے گا۔ یہی قول لینا چاہیے کہ جس طرح ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ اگر معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث نہ آتی کہ جو"مؤطا"وغیرہ میں ہے۔
"أن النبـــي صلـــى الله عليـــه وسلـــم كـــان نـــازلاً فـــي سفـــره إلــى تبـــوك ، أو فــي رجوعــه مـــن تبـــوك ، الشـــك منـــي ، فحضـــرت صـــلاة الظهـــر ، فخـــرج رســــول الله صلـــى الله عليـــه وسلـــم أي مــن خيمتــه ، وأمـــر بالأذان فؤذن ، وبالصــلاة فأقيمـــت فصلـــى الظهـــر والعصـــر"
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقعہ پر کسی جگہ اترے تو ظہر کی نماز کا وقت ہو رہا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکل کر اذان کا حکم دیا۔ پھر نماز کا حکم د یا ۔جماعت کھڑی ہو گئی تو ظہر وعصر کی نماز پڑھی۔ تو یہ جمع تقدیم ہوگئی۔ اسی طرح جب مغرب کا وقت ہوا تو اذان کا حکم دیا اور جماعت کھڑی ہوئی تو مغرب و عشاء دونوں نمازیں پڑھ لیں۔ یہ جمع تقدیم کے مطابق تو یہ حدیث صریح ہے کہ اگر مسافر کہیں اتر چکا ہے تو وہ وہاں جمع کر سکتا ہے۔
جب ہم ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث معاذ کی حدیث کے ساتھ ملائیں گے تو نتیجہ خود بخود نکل آئے گا۔ کہ مسافر کے لیے دونوں صورتوں میں جمع جائز ہے چاہے سفر کر رہا ہو یا کہیں ٹھہر چکا ہو۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب