السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی عشاء کی آخری رکعت میں آکر امام کے ساتھ ملا تو اب کیا وہ فوت شدہ رکعات پوری کرے گا یا قضا کرے گا؟ اور جو رکعتیں فوت ہو گئی ہیں کیا ان میں جہراً تلاوت کرے گا؟(فتاوی المدینہ:32)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں علماء کے دو قول ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ جو شخص دیر سے جماعت کے ساتھ ملا تو اس کی جتنی نماز فوت ہو چکی ہے وہ کھڑا ہو کر اسے پورا کرے گا۔ اور جو قضائی کرے گا اسے نماز میں سے ہی شمار کیا جائے گا اور یہ احناف کا مؤقف ہے۔ دوسرا قول کہ جو اس نے امام کے ساتھ پا لیا وہ رکعتیں اس کی نماز کا اول حصہ شمار ہو ں گی اور جو رکعت فوت ہو گئی ہیں تو وہ اامام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو کر پورا کرے گا۔
اختلاف کا سبب یہ ہے کہ ایک حدیث دو طرح سے مروی ہے:
"مَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا ، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّواا"
اور دوسری حدیث روایت میں ہے:
"فاقصوا"جو تم پالو وہ پڑھ لو "اور جو فوت ہو جائے تو تم اسے پورا کرو۔ دوسری حدیث میں ہے’’تم اس کی قضا کرو۔‘‘
دونوں مسلکوں والوں نے ان روایات میں سے ہی استدلال کیا ہے۔ دوسرا قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ دونو ں روایتوں میں معنی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔"فاقضوا" کا لغوی معنی "فأتموا" ہے۔ جبکہ احناف نے "فاقضوا" کا معنی قضاء اصطلاح کیا لیکن عربی میں اس کا مفہوم "فأتموا" ہی بنتا ہے اور یہ معنی کئی ایک آیات سے بھی صراحتاً ثابت ہوتا ہے:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلوٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ...﴿١٠﴾... سورة الجمعة
تو یہاں یہ بھی "قُضِيَتِ الصَّلَاةُ" کا معنی قضا کرو۔ جبکہ صحیح معنی یہاں بھی "اتمام" ہی ہے۔
اسی طرح دوسرا اللہ کا فرمان ہے:
﴿فَإِذا قَضَيتُم مَنـٰسِكَكُم فَاذكُرُوا اللَّهَ...﴿٢٠٠﴾... سورة البقرة
"قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ" کا معنی یہی ہے"اتممتم مَنَاسِكَكُمْ"سوال کے دوسرے حصہ کا جواب یہ ہے کہ یہ تو پہلے حصہ سے سمجھ آرہا ہے کہ جس کی تین رکعتیں نکل گئیں ۔ وہ ایک رکعت پڑھ کر تشہد میں بیٹھے گا۔ پھر کھڑا ہو کر دورکعتیں پڑھے گا کہ جن میں فاتحہ کے بعد کچھ بھی نہیں پڑھے گا اور نہ ہی جہراً پڑھے گا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب