سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) رکوع سے اٹھتے وقت مقتدی کیا کہے؟

  • 21843
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1090

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مقتدی پر لازم ہے کہ رکوع سے سر اٹھاتے وقت وہ بھی "سمع اللہ لمن حمدہ"ہے؟(فتاویٰ المدینہ:19)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں علماء کے مابین اختلاف ہے۔بعض اس کے وجوب کے قائل ہیں اور بعض نفی کے قائل ہیں۔ہمارا خیال یہ ہے کہ امام کے ساتھ"سمع اللہ لمن حمدہ" کہے۔اس مسئلہ کے بارے میں حافظ سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک پورا رسالہ لکھا کہ جس میں انہوں نے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کے موقف کی تائید کی ہے۔فرماتے ہیں کہ"مقتدی تحمید اور تسمیع دونوں کے درمیان جمع کرے گا۔ہم بھی اسی کو راجح سمجھتے ہیں۔دو اسباب کی وجہ سے۔

پہلا سبب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

’’کہ اس طرح نماز پڑھو جیسا مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی امامت سے سیکھی۔" كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي" کاجو معنیٰ ہے وہ بھی یہی ہے کیونکہ یہ صورت ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے لیے اس وقت ظاہر تھی۔جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔آپ دونوں کو جمع کرتے تھے۔یعنی سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تھے کہ جب رکوع سے اپنا سربلند کرتے قیام کی طرف۔جب پوری طرح کھڑے ہوجاتے تو پھر"ربناولك الحمد"کہتے تھے۔

دوسرا:ركوع سے قیام کی  طرف آتے وقت کے لیے ایک حدیث ہے اور جبکہ قیام کے لیے ایک الگ سی حدیث ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ مقتدی صرف "ربناولك الحمد"کہے گا تو یہ کب کہے گا؟اگر وہ رکوع سے سر اٹھاتے وقت کہے۔تو گویہ دعا اپنی جگہ سے ہٹ کر  پڑھی گئی۔"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي" کی پیروی نہیں ہوئی۔تو اتنا ہے کہ اس نے دوسری حدیث کی توپیروی کی ہے لیکن رکوع  سے قیام کی طرف آتے وقت درمیان کی دعا چھوڑ دی تو اس سنت کے چھوڑنے کو جائز کرنے والی کوئی چیز نہیں ۔پھر نماز میں تو اس طرح کا خالی چھوڑا ہوا کوئی رکن نہیں ہے کہ جس میں کوئی خاص دعا نہ ہو اور دوسری جس حدیث میں یہ ذکر ہے۔

" وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , فَقُولُوا : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "

تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ مقتدی سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے۔اس کی مثال اس طرح ہےکہ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ:

"إِذَا قَالَ الْإِمَامُ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ"

تو اس حدیث کایہ مطلب نہیں ہے کہ  امام"آمین" نہیں کہے گا۔تو ہم اس حدیث میں متقدیوں کے لیے آمین کہنے کو مشروع سمجھتے ہیں۔اورامام کے آمین کہنے کو ناجائز نہیں سمجھتے۔کیونکہ یہ حدیث اس میں خاموش ہے جبکہ دوسری صریح حدیث موجود ہے کہ جس  میں امام کے لیے"آمین" کہنا ثابت ہے۔جیسے بخاری ومسلم"میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے۔

"إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ ، فَأَمِّنُوا"

تو اسی طرح ہم یہی بات:

" وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ , فَقُولُوا : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "

میں کہتے ہیں کہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مقتدی" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ "نہ کہے بلکہ اس سے خاموش ہے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

نماز کا بیان صفحہ:174

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ