السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
"سنن ابی داود"میں ایک حدیث ہے:
"....قَالَ : سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، ثُمَّ رَفَعَ وَاعْتَدَلَ حَتَّى رَجَعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ"
کیا اس حدیث کو ہم اس معنی پر محمول کرسکتے ہیں کہ ہر ہڈی اپنی اصلی جگہ پر لوٹ آئے سے مراد رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا؟(فتاویٰ الامارات:41)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جسم کے استقرار کو برقرار رکھنا اس کی معروف کیفیت کے مطابق شرعی لحاظ سے ہر عضو کومستقل رکھنا اپنی اصل جگہ میں۔
ہر عمومی دلیل بہت سارے حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔لیکن اس حصہ پر عمل سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔تو لہذا اس حصہ پر عمل مشروع نہیں ہے ۔اس عام کا قاعدے سے غفلت کا باعث یہی پہلا سبب ہے۔مسلمانوں کے درمیان بدعت کے عما ہونے کا تو اگر ہم ان بدعات پر غور کریں توان کے لیے دلیل تو ہمیں حدیث کے عموم سے مل جائےگی،بلکہ قرآن کریم سے بھی مل جائےگی۔
مثلاً:اذان کے شروع میں جو درود پڑھنا ہے یا جس طرح کہ قرآن کریم کی مختلف آیات پڑھنے پر مختلف دعائیں۔ہم ان الفاظ کو بدعت کہنے میں تردد کا شکار بھی نہیں ہوتے لیکن جو حضرات یہ چیزیں پڑھتے ہیں وہ نہیں مانتے۔بلکہ وقرآن سے دلیل پیش کرتے ہیں۔
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب
اب یہ ایک عام نص سے استدلال ہے اب اس میں درود پڑھنے کا نہ وقت مقرر ہے،نہ جگہ مقرر ہے ۔اس لیے امام شاطبی فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت حقیقی:کہ جس کی کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔مطلق طور پر جیسے جبریہ اور مرجیہ وغیرہ کے عقائد ہیں۔دوسری قسم ہے اضافی بدعت۔۔۔یہ وہ بدعت ہے کہ ایک زاویہ سے اگر اس کی طرف دیکھا جائے تو اس کی بھی کوئی اصل نہیں ملتی۔
مثلاً:جیسے نمازوں کے بعد استغفار کرنا لیکن اجتماعی استغفار نماز کے بعد اس کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ ایک بدعت ہے۔
دوسری مثال:یہ بھی پہلی مثال کے ساتھ ملتی جلتی ہے۔نفل پڑھنا مشروع ہے لیکن کوئی اگر نفل نماز کی بھی جماعت کروائے اور اس دلیل سے حجت پکڑ:
"يد الله على الجماعة" ’’کہ جماعت پر اللہ کاہاتھ ہے‘‘
یا اس دوسری حدیث سے دلیل پکڑے:
"صلاة الاثنين افضل من صلاة العرء وحده وصلاة الثلاثة ازكي عندالله من صلاة الاثنين"
کہ دوشخص کی نماز ایک سے افضل ہے اور تین شخص کی جماعت کی نماز دو سے افضل ہے۔تو یہ عام ادلہ سے اس طرح استدلال کرے تو جب ایک شخص ایک نص سے استدلال کرے کہ جو عام نص ہو شرعی عمل معین ثابت کرے تو بہت اچھا ہے۔بشرط یہ کہ سنت سے بدعت کی طرف انحراف کرنے سے بچے۔ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم دیکھیں کہ کیا سلف نے بھی ایسا کیا ہے یانہیں؟بہرحال آپ کا جو اصل سوال ہے اس کے حوالہ سے میں یہی کہوں گا کہ اس طرح کی احادیث کسے عموم سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے لیکن اس عموم کے مطابق سلف کا عمل ثابت نہیں ہے لیکن اس کے استحباب کا فتویٰ نہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی نے دیا اور نہ ہی ائمہ میں سے کسی نے دیا ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا سنت طریقہ ہے کہ جس طرح رکوع سے پہلے اہل السنۃ کےنزدیک ہاتھ باندھنا سنت ہے۔یہاں ایسی کوئی خاص حدیث بھی نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہورکوع سے پہلے اس طرح سے ہاتھ رکھنا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب