السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قضائے حاجت کرتے وقت' بوقت ضرورت کسی سے بات کی جاسکتی ہے،قرآن وحدیث کےدلائل سے جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کررہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص نے پاس سے گزرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إِذَا رَأَيْتَنِي عَلَى مِثْلِ هَذِهِ الْحَالَةِ فَلَا تُسَلِّمْ عَلَيَّ ، فَإِنَّكَ إِنْ فَعَلْتَ ذَلِكَ لَمْ أَرُدَّ عَلَيْكَ "
’’جب تو مجھے ایسی حالت میں دیکھے تو مجھے سلام نہ کر'اگر تم مجھے سلام کرو گے(اس حالت میں) میں تمھیں جواب نہیں دوں گا۔‘‘(الصحیحہ:197)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیشاب کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی'جس سے دوران قضائے حاجت بات کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اور ممانعت والی حدیث جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ذکر ہے(دوران قضائے حاجت بات کرنے سے) تووہ صحیح نہ ہونے کے ساتھ ساتھ صریح بھی نہیں،اس لیے کہ اس کے الفاظ یہ ہیں:
"لاَ يَتَنَاجَى اثْنَانِ عَلَى غَائِطِهِمَا يَنْظُرُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَى عَوْرَةِ صَاحِبِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَمْقُتُ عَلَى ذَلِكَ"
’’دوبندے قضائے حاجت کے دوران ایک دوسرے کی شرمگاہ کی طرف دیکھتے ہوئے گفتگو نہ کریں'اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔‘‘
پھر مجھے اس کی دوسری سند بھی مل گئی'جسے میں نے(سلسۃ الصحیحہ:3120)میں ذکر کیا ہے۔
حدیث مذکور شرمگاہ کی طرف دیکھتے ہوئے بات چیت کی ممانعت کی دلیل ہے،جو کہ اللہ کی ناراضگی کے کاموں میں سے ہے'نہ کہ صرف بات کرنے کی ممانعت کے متعلق۔اگرچہ بات کرنےوالا خود بھی اسے قبیح سمجھتاہے۔
(اس حدیث سے تو حرمت ثابت نہیں ہوتی) بلکہ ایسی دلیل کا ہونا ضروری ہے جس سے حرمت ثابت ہو اور وہ ہمیں نہیں ملی۔(ہاں) شرمگاہ کی طرف دیکھنے کی حرمت دیگر احادیث سے ثابت ہے۔(نظم الفرائد:1/246)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب