السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا جس طرح کافر آدمی کو قبر میں عذاب ہوتا ہے اور فرشتے اس کو مارتے ہیں یہی صورت حال ایک نافرمان مسلمان کے ساتھ بھی ہوتی ہے؟(فتاویٰ الامارات:44)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ ایسی چیز ہے کہ جس کے بارے میں ہم اتنا زیادہ نہیں جانتے۔کیونکہ احتمال ہے کہ اس طرح کے عذاب میں کافر کے ساتھ ساتھ منافق یامسلمانوں میں سے فساق شریک ہوتے ہیں کہ جس طرح ایک صریح حدیث ہے:
"اِسْتَنْزِهُوا مِنْ اَلْبَوْلِ, فَإِنَّ عَامَّةَ عَذَابِ اَلْقَبْرِ مِنْهُ"
’’کہ پیشاب کے چھینٹوں سے بچو'بے شک عام طورپہ عذاب قبر اس کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان کو قبر میں عذاب ہوتا ہے لیکن اس عذاب کی نوعیت کیاہوتی ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔اس معنیٰ کی تائید میں ایک اورحدیث بھی ہے کہ"بخاری 1/89۔90 ومسلم 1/640" میں ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔فرماتے ہیں:
قَالَ:"مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّـهُ عَلَيْهِ سَلَّمَ بِقَبْرينِ فَقَالَ:«إِنِّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ»
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے کہ ان کو عذاب ہورہاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو کسی بڑی چیز کیوجہ سے عذاب نہیں ہورہا۔ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتاتھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تر ٹہنی لائی جائے۔اس ٹہنی کو چیر کر دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔دونوں قبروں پر گاڑدیں۔لوگوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کردے کہ جب تک یہ دونوں تر رہیں گی۔‘‘
"صحیح مسلم" میں ایک روایت ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ نے فرمایا:
"لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا ... بِشَفَاعَتِي"
شاید کہ اللہ تعالیٰ میری سفارش کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کردے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب