السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مردے سنتے ہیں؟(فتاویٰ الامارات:34)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غزوہ بدر میں جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے سرداروں کومارا تھا اور ان کو بدر کے کنویں میں پھینکا گیا تھا۔تو نبی علیہ السلام لڑائی ختم ہونے کے بعد کنویں پر آکر کھڑے ہوکر ان مرے ہوئے کفار کےلوگوں کو نام لے لے کر پکاررہے تھے اور فرما رہے تھے:
"يا أهل القليب هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقاً، فإني قد وجدت ما وعدني ربي حقاً"قال عمر يارسول الله ما تكلم من أجساد لا أرواح لها"
"تحقیق میں نے برحق پایا جو مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیاتھا۔کیاتم نے بھی اپنے رب کے وعدے کوسچا پایا؟حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے!اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے اجسام سے مخاطب ہیں کہ جن میں روحیں نہیں ہیں"توحضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس چیز کے بارے میں خبر دے رہے ہیں کہ جو چیز انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے پائی تھی کہ مردے نہیں سنتے اور مزید یہ کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہی کافی ہے:
﴿إِنَّكَ لا تُسمِعُ المَوتىٰ وَلا تُسمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ إِذا وَلَّوا مُدبِرينَ ﴿٨٠﴾... سورة النمل
’’بیشک آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جبکہ وه پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں‘‘
اوردوسرافرمان:
﴿وَما يَستَوِى الأَحياءُ وَلَا الأَموٰتُ إِنَّ اللَّهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ ﴿٢٢﴾... سورة الفاطر
’’اور زنده اور مردے برابر نہیں ہوسکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں‘‘
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
"مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ"
’’کہ جو میں ان سے کہہ رہا ہوں وہ بات یہ لوگ تم سے زیادہ اچھی طرح سن رہے ہیں۔‘‘
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مُردوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنوا دی۔اس مفہوم کی مزید تاکید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جیسے حضرت اما احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح سند کے ساتھ مسند احمد میں روایت کیاہے۔اس اضافہ کے ساتھ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو جواب دیا وہ سابقہ حدیث میں گزر چکاہے۔تو مطلب کے ساتھ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو جواب دیا وہ سابقہ حدیث میں گزرچکاہے۔تو مطلب اس حدیث کا یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس عبارت پر برقرار رہنے دیا کہ جو صحیح تھی لیکن اس میں ایک قید کا اضافہ کردیاکہ یہ مُردے ابھی ان سے مستثنیٰ ہیں۔اس لیے"صحیح بخاری"میں اسی قصہ میں یہ بات آئی ہے ۔اس طریق سے"قتادہ عن انس بن مالک قتادہ فرماتے ہیں۔ان مُردوں کو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے زندہ کردیا تھا تاکہ ان کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنوائی جائے۔ذلیل کرنے اور حقیر کرنے کے لیے۔
ایک اور حدیث بھی"صحیح بخاری" میں آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إذا وضع الميت في قبره وانصرف الناس عنه إنه ليسمع قرع نعالهم وهم عنه مدبرون"
"کہ جب مردے کو قبر میں رکھ دیا جاتاہے اور لوگ واپس پلٹتے ہیں تو البتہ وہ مردہ ان لوگوں کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے جبکہ وہ لوگ واپس جارہے ہوتے ہیں۔تو عام قاعدے سے اس کو مستثنیٰ کردیا کہ مردے صرف اس وقت سنتے ہیں کہ جب لوگ پلٹ کر جارہے ہوتے ہیں۔فقط۔اور اس مسئلہ کا تعلق بھی غیبی امور کے ساتھ ہے ۔تواس میں زیادہ بحث نہیں کی جاسکتی۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب