سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدنبوت اور وحی

  • 21810
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1105

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ابھی تک نبوت اور وحی کا سلسلہ جاری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز فجر سے فارغ ہوکرارشادفرمایا:

"هَل رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا " وَيَقُولُ : " لَيْسَ يَبْقَى بَعْدِي مِنْ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ "

"کیا تم میں سے کسی نے آج  رات کوئی خواب دیکھاہے؟اور فرماتے:میرے بعد نبوت میں سے صرف اچھے خواب ہی باقی رہیں گے۔"(سلسلۃ الصحیحہ:1473)

یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد نبوت اور وحی کا کوئی سلسلہ نہیں سوائے اچھے خوابوں کے اور یہ نبوت کا چھیالیسواں(46)  حصہ ہے۔

اور ایک جماعت جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد نبوت کے بقاء اور جاری رہنے کی دعوے دار ہے' نے اس حدیث اور دیگر احادیث کی تاویل کرتے ہوئے انہیں بیکار قراردیاہے۔

جیساکہ انہوں نے اللہ کےفرمان:

﴿وَلـٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ...﴿٤٠﴾... سورة الاحزاب

کی تحریف کرتے ہوئے"خاتم النبیین"کو زینۃ النبیین" قراردیاہے۔

کبھی کہتے ہیں کہ نشر بہی نبوت ختم ہوگئی،غیر نشربہی نبوت باقی ہے۔

قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ انہی میں سے کسی نے الشیخ محی الدین بن عربی کی کتاب"الفتوحات المکیۃ" سے جھوٹی نبوت پر دلالت کرنے والے چند کلمات پر مشتمل ایک پمفلٹ  ترتیب دے کر اسے لوگوں میں نشر کیا ہے۔بڑے بڑے مشائخ میں سے کوئی بھی ان کارد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔حالانکہ اس سے قبل وہ ان جھوٹی نبوت کے دعویداروں کے رد میں کئی رسائل لکھ چکے ہیں،لیکن وہ اس پمفلٹ کا جواب اس لیے لکھنے سے باز ہیں کہ اس  پمفلٹ کے جامع نے ابن عدی کے کلام جو کہ ان کی گمراہی کامؤید ہے کے سوا'اس میں اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا۔تو یہ اس کی ایک چال ہے کہ اگر یہ مشائخ اس پمفلٹ کا جواب دیتے ہیں تو درحقیقت وہ شیخ اکبر ابن عربی کا رد کررہے ہیں اور اتنی جراءت ان میں نہیں کہ وہ شیخ اکبر کا رد کرسکیں۔اگر وہ اسے زندیقیت(بے دینی) نہیں سمجھتے تو اور بے دینی کیا ہے؟

تو گویا کہ ان مشائخ کا یہ عقیدہ ونظریہ ہے کہ باطل بھی محل اور مقام کے اعتبار سے ہوتاہے۔ اگر یہ ایسے شخص کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں'جیسے یہ کافر سمجھتے ہیں تو(اس کی بات'نظریات) باطل ہیں اور جب ایسے شخص کے مدمقابل ہوں جیسے یہ مسلم بلکہ ولی تسلیم کرتے ہیں ۔تو(اس کے نظریات باطل ہونے کے باوجود) حق ہیں۔واللہ المستعان۔

(یعنی باطل وحق کو پرکھنے کے لیے شخصیات کو معیار سمجھنے سے یہی ہوتا ہے کہ ناپسندیدہ شخصیت کی بات کفر اور پسندیدہ کی حق قرار پاتی ہے۔)

اسی طرح حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کی گئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیٹا ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فوت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’یقیناً اس(میرے بیٹے) کے لیے جنت میں دودھ پلانے والی ہے۔اگروہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔‘‘یہ روایت ضعیف ہے۔(الضعیفہ:220)

اس  حدیث کا دوسرا جملہ حضرت عبداللہ ابن ابی روفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث میں بھی ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ آپ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے صاحبزادے حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے متعلق کیا خیال ہے تو فرمایا:

’’وہ بچپن میں ہی فوت ہوگیا 'اگر یہ بات مقرر ہوتی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد کوئی نبی ہوگاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیٹا زندہ رہتا لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے"صحیح بخاری 10/476 "اور ابن ماجہ:1/459"نے روایت کیا ہے اور احمد"4/353" کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں:"اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد کسی نبی نے آنا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیٹا حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فوت نہ ہوتا۔"

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت ابراہیم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو'اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔‘‘(مسند احمد 3/133،280۔281)

اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اس میں یہ زائد الفاظ ہیں کہ:

’’لیکن وہ باقی(زندہ) نہ رہا'اس لیے کہ تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  آخری نبی ہیں۔‘‘

حضرت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (10/476) نے اسے ذکر کرکے"صحیح" کہا ہے۔

اور یہ روایات اگرچہ موقوف ہیں(لیکن) حکماً مرفوع ہیں۔کیونکہ ان کا تعلق انہی امور  سے ہے۔جہاں رائے'عقل کاکوئی تعلق نہیں۔جب یہ بات آپ کو سمجھ آگئی تو اس سے آپ کو قادیانیوں کی گمراہی واضح ہوجائے گی کہ ان کا اس جملہ:

’’اگرحضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  زندہ رہتا تو نبی ہوتا'سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد نبوت کے باقی وجاری رہنے پر استدلال باطل ہے۔کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس طرح بالکل ثابت نہیں۔

اگر وہ اسے آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے قوی کرنا چاہیں'جیسا کہ ہم نے کیا ہے تو یہ بات انہیں خاموش کرانے کے لیے کافی ہے اور ان کی دلیل انہی کے خلاف جائےگی۔وہ اس طرح کہ آثار صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں اس بات کی تصریح ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد نبی نہ ہونے کے سبب وہ بچپن میں فوت ہوئے۔(اور یہ بات ان کے خلاف ہے) کبھی کبھی وہ اپنی عادت سے مجبور ہوکر مجادلہ کامناظرہ کرتے ہوئے'ان آثار سے استدلال کمزور کرنے اور انہیں موقوف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن ہم نے ان کی اس دلیل کو جن دلائل سے کمزور ثابت کیاہے'اس سے چھٹکارا ان کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے مرفوعاً صراحت سے یہ  حدیث صحیح ثابت نہیں۔(نظم الفرائد 1/156۔154)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

غیب کے مسائل صفحہ:139

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ