السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فقہاء کے نزدیک جمہور کا مطلب کیا ہے؟کیا جمہور سے مراد ایک ہی زمانے کے علماء ہیں یاتمام زمانوں کے؟(فتاویٰ الامارات:54)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ لفظ قائل کے لحاظ سے مختلف ہوتاہے۔حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اپنے سے پہلے والے زمانہ کے تمام علماء کو اس میں شامل سمجھتے ہیں۔تو یہ لفظ نسبت کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی کوئی جامع ومانع تعریف کی جائے۔
جمہور سے مراد علماء کی اکثریت ہے۔دلیل کی بناء پر جمہور کےمؤقف کی مخالفت درست ہے۔بلاشبہ بغیر دلیل کے تو دل اکثریت کی بات پر زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔اقلیت کے مقابلہ میں۔لیکن دلیل کی موجودگی میں تو اس دلیل پر عمل واجب ہے چاہے جمہور کی رائے کے موافق ہویا کہ مخالف ہو۔اور اگر کوئی شخص جمہور کی رائے کی مخالفت کرے اور اس کا دل اقلیت کے مسئلہ پر مطمئن ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
"اسْتَفْتِ قَلْبَكَ... وَإِنْ أَفْتَاكَ الْمُفْتُونَ"
اپنے دل سے فتویٰ پوچھ اگرچہ مفتی تجھے فتویٰ دے دیں۔ کیونکہ شریعت میں اکثریت کی بات حجت سمجھنے کےلیے کوئی نص وارد نہیں ہوئی بلکہ اس کے برخلاف ہمیں بہت ساری نصوص ملیں گی کہ جن میں اکثریت کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جیسے اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٢١﴾... سورة يوسف
’’لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً فَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَافْتَرَقَتْ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً فَإِحْدَى وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِي عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِي النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ قَالَ الْجَمَاعَةُ...........وفي رواية هي التي علي ...مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"
"یہودیوں کے اکہتر(71) فرقے ہوئے اور نصاریٰ کے بہتر(72) فرقے ہوئے۔عنقریب میری امت کے تہتر(73) فرقے ہوں گے۔سارے کے سارے آگ میں جائیں گے۔ایک کے علاوہ۔انہوں نے کہا وہ کونسی جماعت ہے'اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ جماعت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ راستہ کہ جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔
ايك حديث ہے:
".....مَعَ الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ"
’’تم جماعت کو لازم پکڑو جو شخص الگ ہوا وہ جہنم میں گیا۔‘‘
تو اس حدیث کاپہلا حصہ تو صحیح ہے اور دوسرا حصہ "وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ" یہ ضعیف ہے۔
حدیث میں جس جماعت کاذکرہے اس سے مراد سلف صالحین کی جماعت ہے ۔جیساکہ بعض روایات میں اس کی وضاحت آئی ہے۔ترمذی وغیرہ میں:
"كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً ، قَالُوا : وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"
سارے کے سارے آگ میں جائیں گے۔ایک کے علاوہ۔انہوں نے کہا وہ کونسی جماعت ہے'اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ جماعت ہے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ راستہ کہ جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب